صدر کے باقی اختیارات بھی ختم ہوں گے : تحریر مزمل سہروردی


صدر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے بل کو واپس بھیجا تھا یا نہیں بھیجا تھا۔ توثیق کی تھی یا نہیں کی تھی۔ اس حوالے سے یہ تنازعہ تو چل ہی رہا ہے۔ لیکن اب یہ قانون بن چکے ہیں اب ان کو ختم کرنے کے لیے واحد راستہ سپریم کورٹ ہی ہے۔

کیا صدر عارف علوی وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے تھے؟ کیا اب انھوں نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور جاتے جاتے وہ سیاسی شہید بننا چاہتے ہیں؟ کیا وہ واقعی سیاسی شہید بن جائیں گے؟ کیا وہ مستعفی ہونے جا رہے ہیںیا وہ اپنی مدت پوری ہونے پر گھر جائیں گے؟ کیا وہ اپنی مدت پوری ہونے کے بعد بھی صدر رہیں گے؟

میری رائے میں یہ سب سوال کوئی اہم نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ایک دفعہ پھر یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ صدر مملکت کے پاس اب بھی جو اختیارات ہیں وہ ملک کے سیاسی نظام اور پارلیمان کی طاقت کو کمزور کر سکتے ہیں۔
اس لیے اگر ملک میں پارلیمانی نظام کو چلانا ہے تو صدر کے باقی اختیارات کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں جیسے 58 (2B) کے معاملے پر ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ اگر صدر مملکت کے پاس یہ اختیار رہتا ہے تو ملک میں جمہوری اور پارلیمانی نظام نہیں چل سکتا۔ اس لیے جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیار کو ختم کر دیا جائے۔ آپ دیکھیں اس کے بعد پارلیمان نے اپنی مدت پوری کرنی شروع کر دی ہے۔

بے شک وزیر اعظم گھر چلا جائے لیکن پارلیمان اپنی مدت پوری کرتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیار کو ختم کر کے ملک میں جمہوریت اور پارلیمنٹ مضبوط ہوئی ہے۔ حالانکہ دنیا کے کئی ممالک میں صدر اور دیگر سربراہان کے پاس یہ اختیار موجود ہے۔ لیکن وہاں اس کو ایسے استعمال نہیں کیا گیا تھا جیسے پاکستان میں بالخصوص صدر غلام اسحاق خان نے استعمال کیا۔

لوگ سوال کرنے لگے کہ یہ کیا بات ہے کہ صدر جب دل چاہے اسمبلی اور حکومت کو گھر بھیج دے۔ یہ کیسے جائز ہے۔ حالانکہ دنیا کے کئی ممالک میں اختیار موجود ہے اور وہاں اس پر کوئی تنقید نہیں۔ لیکن پاکستان میں اس کے غلط استعمال کو ختم کرنے کی نہ صرف راہ ہموار کی بلکہ ختم کروا بھی دیا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ عدالتوں نے بھی صدر کے اس اختیار کا جائزہ لینا شروع کر دیا کہ کیا اختیار ٹھیک استعمال ہوا بھی ہے کہ نہیں۔

میں نے یہ مثال اس لیے دی ہے کہ جب آپ اپنے اختیار سے ملک کے نظام حکومت اور نظام کو مفلوج کرنے کی کوشش کریں تو اس اختیار کے جائز اور ناجائز ہونے کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح صدر عارف علوی نے آئین میں دیے گئے اختیارات کا اتنا غلط اور ناجائز استعمال کیا ہے کہ اب سوال پیدا ہو گیا ہے کہ صدر کے پاس جو اختیارات ہیں کیا وہ بھی ختم نہیں کر دینے چاہیے۔ صدر عارف علوی نے بلا شبہ صدر مملکت کے عہدہ کو اتنا ہی نقصان پہنچایا ہے جتنا غلام اسحاق خان نے پہنچایا تھا فاروق لغاری نے پہنچایا تھا۔

پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا کہ صدر مملکت کا عہدہ ایک غیر سیاسی عہدہ ہے۔ آپ وزیراعظم بن کر بھی ایک سیاسی جماعت کے رکن اور سربراہ بھی ہو سکتے ہیں۔آپ سیاست کر سکتے ہیں۔لیکن صدر مملکت ہوتے ہوئے آپ کسی سیاسی جماعت کے رکن اور سربراہ نہیں ہو سکتے۔ بطور وزیراعظم آپ سیاسی اجتماعات میں شرکت کر سکتے ہیں۔

لیکن صدر مملکت ہوتے ہوئے آپ سیاسی اجتماعات میں شرکت نہیں کر سکتے۔ آئین کا تقاضہ ہے کہ آپ صدر مملکت بن کر سیاست چھوڑ دیں۔ جیسے آپ چیف جسٹس یا جج بن کر سیاست نہیں کر سکتے۔ آرمی چیف یا فوج میں رہ کر سیاست نہیں کر سکتے۔ ایسے ہی آپ صدر بن کر سیاست نہیں کر سکتے۔ یہ آئین کا بنیادی تقاضہ ہے۔ صدر کو تمام اختیارات یہی سمجھ کر دیے گئے ہیں کہ صدر مملکت ایک غیر سیاسی انسان ہیں۔

لیکن صدر عارف علوی آئین کی اس روح کو برقرار نہیں رکھ سکے۔آج سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر حکومت کی مخالف سیاسی جماعت کارکن ملک کا صدر بن جائے تو وہ حکومت کو کیسے ناکام کر سکتا ہے۔ وہ حکومت کو کام کرنے سے روکنے کے لیے کیا آئینی حربے استعمال کر سکتا ہے۔ وہ کس کس اہم تعیناتی کو کتنے دن تک روک کر ملک کے نظام کو مفلوج کر سکتا ہے۔

آج لوگوں کو یہ تو یاد ہوگیا ہے کہ صدر مملکت ایک بل کو کتنے دن روک سکتے ہیں۔ پھر واپس بھیج سکتے ہیں۔ پھر آجائے تو پھر کتنے دن تک روک سکتے ہیں۔ کسی کو یہ یاد نہیں کہ صدر کیا مثبت کام کر سکتا ہے۔ لیکن صدر عارف علوی نے سب کو یہ یاد کروا دیا ہے کہ صدر کون کون سا منفی کام کر سکتا ہے۔ کیا یہ کوئی اچھی بات ہے، یقینا اب پاپولر سیاسی جماعتوں کی یہ سوچ ہو گی کہ صدر کے ان منفی اختیارات کو کیسے ختم کیا جائے۔

کیا یہ سوال اہم نہیں کہ کیا صدر عارف علوی نے تحریک انصاف کی حکومت میں کبھی کسی قانون پر کوئی اعتراض کیا تھا؟ کیا کبھی کسی تعیناتی کو ایک دن کے لیے بھی روکا تھا؟ کیا تحریک انصاف کے دور حکومت میں انھوں نے ایوان صدر میں آرڈیننس فیکٹری نہیں لگائی ہو ئی تھی؟ کیا کپتان کے دور میں انھوں نے کبھی کسی چیز پر اعتراض کرنے کی جرات بھی کی تھی بلکہ انھوں نے کپتان کے کہنے پر غیرآئینی طور پر پارلیمان توڑ دی تھی۔ حالانکہ بطور صدر مملکت انھیں علم تھا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وزیراعظم اسمبلی نہیں توڑ سکتا۔ لیکن انھوں نے کپتان کے غیر آئینی اقدام کی بھی توثیق کر دی۔

اس لیے جو کردار آج وہ ادا کر رہے ہیں وہی کردار وہ کپتان کی حکومت میں نہیں کر رہے تھے۔ اس لیے ان کا کردار یکساں نہیں ہے جو آئین کے مطابق ہونا چاہیے۔

میں سمجھتا ہوں صدر مملکت کا کردار اور ان کا کنڈکٹ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ ان کے ہر عمل کو سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے۔ وہ پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں لیکن نو مئی کے ملزمان کے ساتھ بھی انھیں ہمدردی ہے۔

ان کی سہولت کے لیے بھی وہ جو کچھ کرسکتے ہیں کر رہے ہیں۔ وہ آئینی طور پر اداروں کے محافظ بھی ہیں اور اداروں کے خلاف مہم روکنے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اب صدر مملکت کے باقی اختیارات کو بھی ختم کرنے کے بارے میں بات شرو ع ہو گئی ہے۔

جیسے پہلے اختیارات ختم کیے گئے تھے اب باقی اختیارات بھی ختم ہو جائیں گے۔ کاش صدر عارف علوی سیاست نہ کرتے۔ انھوں نے صدر کے عہدے کو دوبارہ متنازعہ بنا کر اسے کمزور کرنے کے لیے راہ ہموار کی۔ یہ ایک افسوسناک بات ہے۔ اختیارات کا غلط استعمال ان کو ختم کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے یہی حقیقت ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس