جلے ہوئے احساسات کے درمیان … تحریر : ڈاکٹر صغرا صدف


عین اس دن جب لاہور کے ایک بڑے ہوٹل کے شاندار ہال میں پنجاب ہائر ایجوکیشن اور سنٹر فار پیس کے تعاون سے دو روزہ وائس چانسلرز کانفرنس کے ایک سیشن میں میرے ساتھ سٹیج پر بیٹھے ڈاکٹر مرتضی جعفری،ڈاکٹر شریعہ حسین،ڈاکٹر احمد بلال، راشد رانا، رابعہ جلیل اور ڈاکٹر آصف منیر آرٹ اور کلچر کے ذریعے بچوں میں برداشت، امن اور رواداری پیدا کرنے کی تجاویز شئیر کر رہے تھے جڑانوالہ میں ایک بے خوف ذہن کے اعلان نے قیامت برپا کی ہوئی تھی۔ کھلے آسمان تلے جھلستے لوگوں کے دکھ بانٹنے ہم وجود کو برگد بنا کر وہاں پہنچے تو عجیب ہی منظر تھا۔ جلے ہوئے چرچ کے درودیوارپر سینکڑوں کہانیاں درج تھیں،جو ہمارے احساس نے سنی بھی اور اذیت بھی محسوس کی۔ہم سب سے پہلے جس گھر میں گئے وہ شاید ایک مرلے کا گھر ہوگا۔ ایک چھوٹا سا کمرہ جس کے فرش پر جلی ہوئی اشیا کی کالک لگی ہوئی تھی۔ زمین پر دری وغیرہ بچھا کر سوتے ہوں گے کیونکہ اس میں دو چار پائیوں کے علاوہ جگہ نہیں بچتی تھی۔گلی سے دروازے کے اندر پاؤں رکھو تو ایک چھوٹا سا چکور حصہ جہاں سے پکی سیڑھیاں سلیقے  سے وسیع آسمان کا دیدار کرنے کو موجود تھیں۔سیڑھیوں پر بھی کافی کالک تھی یہاں بھی گھر کا سازو سامان پڑا ہوگا۔یقینا سیڑھیوں والا یہ چھوٹا سا چکور حصہ بیک وقت صحن،برآمدہ اور باورچی خانہ ہوگا۔

یہ کل کائنات تھی اس لڑکی کی جس کا رونا ختم ہی نہیں ہو رہا تھا۔اونچی آواز میں بین کررہی تھی کہ ہائے میرا گھر، ہائے میرا گھر، گھر تو وہیں تھا مگر خواب جل گئے تھے۔ کوئی بھی چیز سلامت نہیں تھی صرف دیواریں تھیں اور وہ بھی جلی ہوئی، پوری فضا نے ماتمی لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ فرش پر پلاسٹک، کپڑے، لکڑی اور دیگر چیزوں کی راکھ نوحہ کناں تھی۔ یقینا اس میں وہاں حیران بیٹھے بچوں کے کھلونے بھی ہوں گے۔ یادوں،خوابوں محبتوں، خواہشوں اور امیدوں کی پوٹلیاں بھی ہوں گی جو جل گئیں۔ کچھ دن پہلے تک وہ کتنی خوش اور مطمئن تھی کہ اس نے اور اسکے خاوند نے شب و روز کئی جگہوں پہ کام کر کے یہ پکا لینٹر والا ایک کمرے کا گھر بنایا تھا جس کی نہ چھت ٹپکتی تھی اور نہ بارش نالی کا گندا پانی اونچے صحن کے اندر پھینک سکتی تھی۔ آجکل وہ گھر کی چیزیں جمع کرنے کے لئے محنت کر رہی تھی۔کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے پوری توانائی اور یقین کے ساتھ ترقی کے سفر پر رواں تھی۔ پھر ایک دن صبح چھ بجے اعلان ہوا۔ وہ گھر کو تالا لگا کر اپنے خاوند اور بچوں سمیت قریب ہی مسلمانوں کے گھر پناہ گزین ہو گئی شور ہوا، نفرت کی اندھی چیخ سے اس کے گھر کے دروازے پر لگا تالا کپکپایا، بپھرا ہجوم اندر گیا اور اس کی برسوں کی محنت کو تہس نہس کرنے کے لئے پٹرول اور مٹی کا تیل پھینک کر اس طرح آگ لگائی کہ کوئی سپنا اور آرزو باقی نہ رہ جائے، بچوں کے کپڑوں کی جیب میں رکھی کاغذ کی تتلی تک جل جائے۔ یہ ایک لمحے میں برپا ہونے والی قیامت نہیں تھی، اس کے پیچھے باقاعدہ منصوبہ بندی اور وسائل کا استعمال تھا۔ جڑانوالہ میں موجود منصفوں، انتظامیہ،مذہبی و سیاسی رہنماؤں کے بیانات ریوائنڈ ریل کی طرح سنائی دے رہے تھے کہ مذہب فلاں فلاں کام کی اجازت نہیں دیتا مگر جو اجازت دیتا ہے اس کی کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔اس کو پکڑنے اور باز رکھنے کی طرف کسی کی توجہ نہیں تھی۔ تاہم اس علاقے میں مسلمانوں اور مسیحوں کے درمیان کمال کے دوستانے نے شدید متاثر کیا۔خود مسیحی کمیونٹی نے اس کا اعتراف کیا۔وہ سب دکھی تھے انہوں نے اپنے گھروں میں مسیحیوں کو پناہ دی لیکن وہ ارد گرد کے گاؤں سے آنے والے پرتشدد ہجوم کو نہ روک سکے کہ خود بھی نہتے تھے۔وزیراعلی پنجاب جناب محسن نقوی سے درخواست ہے، خدارا لٹے ہوئے لوگوں کے حوصلے ٹوٹنے اور امیدوں کے چراغ بجھنے سے پہلے ان کے خالی ویران گھروں کے چہچہانے کا چارا کریں ،سامان کیساتھ تحفظ کا احساس بھی دیں تاکہ ان کے ڈر کا خاتمہ ہو۔ جھنڈے کی شرٹ پہنے ان بچوں کے فکرمند چہروں کے سوال پڑھنے کی ضرورت ہے۔

بقول افضال فردوس

وہاں پہ تازہ لہو کے دہکتے چھینٹے تھے

جہاں میں چاند ستارہ بنانے والا تھا

بشکریہ روزنامہ جنگ