ایمان مزاری نے جان بوجھ کر ایک قابلِ اعتراض تقریر کی، وہ جانتی تھی کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے مظاہرے میں اسے کون سا نعرہ لگانا ہے اور تقریر میں کیا کہنا ہے جو اسکی گرفتاری کا باعث بن سکتا ہے، وہ جانتی تھی کہ صرف لاپتہ افراد کی بازیابی اور آئین سے غداری کرنے والوں کے کورٹ مارشل کرنے کا مطالبہ اسکی گرفتاری کا باعث نہیں بنے گا۔ اس نے اپنی تقریر کے اختتام پر ایک نعرہ لگایا جس کا ہزاروں افراد نے جواب دیا۔ تقریر ختم کرنے کے بعد اسے مشورہ دیا گیا کہ وہ آج رات اپنے گھر نہ جائے کیونکہ اسے گرفتار کرلیا جائیگا لیکن وہ مسکراتی رہی۔ اسکے کچھ قریبی دوست کافی دنوں سے یہ اندازہ لگا چکے تھے کہ ایمان مزاری جیل جانے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ جس تقریر کے باعث اسے گرفتار کیا جائے اس تقریر پر عدالت میں قانونی بحث ہونی چاہئے۔ جب سرکاری وکیل اسے ریاست کا دشمن قرار دیگا تو وہ سرکاری وکیل سے پوچھے گی کہ ریاست کیخلاف جنگ کرنے والی کالعدم تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کس نے کیے؟ پاکستانی عدالتوں سے پھانسی کی سزا پانے والے دہشت گردوں کو صدر پاکستان سے معافی کس نے دلوائی؟ ایمان مزاری اکثر اوقات اپنے وکیل دوستوں سے یہ بحث کرتی کہ ہم کب تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عدالتوں میں درخواستیں دائر کرتے رہیں گے؟ وہ کہتی تھی کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی شہریوں کو کس کے حکم پر کون غائب کرتا ہے؟ وہ پوچھتی تھی کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ پاکستان میں آئین و قانون کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کون کرتا ہے؟ کیا ہمیں ان آئین دشمنوں کوسرعام چیلنج نہیں کرنا چاہیے؟ بہت سے وکلا نے اسے سمجھایا کہ ہمیں جو بھی کرنا ہے قانون کے دائرے کے اندر رہ کر کرنا ہے لیکن ایمان پوچھتی تھی کہ کیا قانون کا احترام صرف ہم پر واجب ہے؟ قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار قانون کا احترام کب کریں گے؟
بہرحال 19 اگست کو ایمان مزاری نے اسلام آباد کے علاقے ترنول میں پی ٹی ایم کے ایک مظاہرے میں وہ تقریر کر دی جو کچھ لوگوں کے خیال میں بڑی قابل اعتراض تھی۔ اسی رات تھانہ ترنول میں ایمان مزاری، علی وزیر اور منظور پشتین سمیت پی ٹی ایم کے درجنوں کارکنوں کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کردی گئی اور 20 اگست کی صبح ایمان مزاری کو ان کے گھر میں گھس کر گرفتار کرلیا گیا۔ کافی دیر کے بعد جب ایمان مزاری کے وکلا کو تھانہ ترنول میں درج ہونے والی ایف آئی آر ملی تو اس میں نہ تو ایمان مزاری کی تقریر کا ذکر تھا اور نہ ہی اس قابل اعتراض نعرے کا ذکر تھا جسے کچھ خود ساختہ محب وطنوں نے ریاست کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا تھا۔ ایمان مزاری پر سڑک بند کرنے، گاڑیوں کے شیشے توڑنے اور پولیس سے الجھنے کا مقدمہ بنایا گیا۔ ہوسکتا ہے تقریر پرکوئی اور مقدمہ بنا دیا جائے لیکن کم از کم ایمان مزاری نے وہ تو نہیں کیا جو 9 مئی کو ہوا تھا۔ 9 مئی کے ہنگاموں اور مظاہروں میں ملوث کئی لوگ جب جہانگیرترین اور پرویز خٹک کی پناہ میں چلے گئے تو انہیں رہا کردیاگیا۔ فیاض الحسن چوہان کو تو پولیس کی حراست سے نکال کر سیدھا استحکام پاکستان پارٹی میں بھیج دیا گیا۔ جس جس نے ترین صاحب اور خٹک صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کیا اسے بار بار گرفتار کرلیا جاتا ہے یا اس کے اہل خانہ کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ شاہ محمود قریشی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران انہیں بار بار گرفتار کیا گیا اور وہ عدالت کے حکم پر رہا ہوتے رہے اب انہیں سائفر کیس میں گرفتار کرلیاگیا ہے جس کے مرکزی ملزم سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ہیں۔
اگر شاہ محمود قریشی بھی پرویز خٹک بن جاتے تو انہیں دوبارہ گرفتار نہ کیا جاتا لیکن انہوں نے اٹک جیل کے قیدی نمبر 804 کی مذمت کرنے سے انکار کردیا اس لئے انہیں سائفر کیس میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے خاندانی پس منظر پر نظر دوڑائی جائے تو وہ اپنی خاندانی روایات کے خلاف چل رہے ہیں۔ میں ماضی میں ان کی خاندانی روایات پر بہت کچھ لکھ چکا ہوں جوتاریخ کا حصہ ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ آج کا شاہ محمود قریشی 1857 کے شاہ محمود قریشی سے مختلف ہے جس نے باغیوں کی سرکوبی میں انگریزی فوج کاساتھ دیا تھا۔ شاہ محمود قریشی کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی نے 1965 کے صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جنا ح کے مقابلے میں جنرل ایوب خان کا ساتھ دیا۔ بعد ازاں مخدوم سجاد حسین قریشی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ جنرل ضیاالحق نے مارشل لا لگایا تو انہوں نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی اور پنجاب کے گورنربن گئے۔ قریشی خاندان ملتان کی سیاست میں گیلانیوں اور مخدوم جاوید ہاشمی سے برسرپیکار رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں پہلی دفعہ ایم پی اے بنے تھے۔ 1988 میں پنجاب کے وزیر اعلی نواز شریف نے انہیں اپنا صوبائی وزیر خزانہ بنایا۔ 1989 میں رانا شوکت محمود پنجاب اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن تھے۔ مرکز میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کولبرلائز کرنے کا فیصلہ کیا تو مجھے حکومت اور اپوزیشن کو آمنے سامنے بٹھا کر ڈائیلاگ کرانے کا فریضہ سونپا گیا۔میں نے پنجاب کے وزیر خزانہ شاہ محمودقریشی اور رانا شوکت محمود کو آمنے سامنے بٹھا کر پی ٹی وی پر ایک نئی روایت کا آغاز کیا۔ اشرف عظیم اس پروگرام کے پروڈیوسر تھے۔ پی ٹی وی پر اپوزیشن کی رونمائی پیپلز پارٹی پنجاب کے کچھ لیڈروں کواچھی نہ لگی اور یہ پروگرام بند ہوگیا۔ بعد ازاں 1993 میں شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی میں آگئے۔ 2011 میں وہ تحریک انصاف میں چلے گئے۔ تحریک انصاف میں وہ جہانگیر ترین کے مخالف گروپ میں تھے۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ شاہ محمود قریشی کا عمران خان کے ساتھ کھڑے رہنا ان کی سیاسی مجبوری ہے کیونکہ وہ جہانگیر ترین کی طرف نہیں جاسکتے۔ اس دلیل میں واقعی وزن نظر آتا ہے لیکن شاہ محمود قریشی کی ایک اور مجبوری بھی ہے۔ وہ یہ کہ اگر چودھری پرویز الہی تحریک انصاف چھوڑ نے کے لئے تیار نہیں تو شاہ محمود قریشی کیسے چھوڑ دیں؟یہ وہی چودھری پرویز الہی ہیں جو کبھی ایک فوجی ڈکٹیٹر کو وردی میں بار بار صدر بنانے کے عزم کا اعادہ کیا کرتے تھے۔ آج وہ چودھری صاحب پنجاب میں ایک نئی روایت کے امین بن چکے ہیں اور شاہ محمود قریشی ان کے پیچھے چل رہے ہیں۔ میری ناقص رائے میں عمران خان کو دوبارہ اقتدار ملا تو ایک دفعہ پھر وہ عثمان بزدار اور پرویز خٹک جیسے لوگوں کے نرغے میں نظر آئیں گے لیکن یہ تو ماننا پڑے گا کہ پنجاب کے مزاریوں کی ایک لڑکی، ملتان کے قریشیوں کا ایک مخدوم اور گجرات کا ایک چودھری پنجاب کا ایک نیا سیاسی چہرہ بن کر سامنے آئے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ