میاں محمد شہباز شریف کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔ نگران وزیر اعظم، انوارالحق کاکڑ تشریف لا چکے ہیں۔ نگران وزیراعظم نے آتے ہی پٹرول کی قیمت میں ساڑھے سترہ روپے اور ڈیزل کی قیمت میں20روپے فی لٹر اضافہ کرکے عوام پر مزید مہنگائی کا جو پہلا بم پھینکا ہے۔
اِسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کی فلاح بارے نگرانوں کے عزائم کیا ہیں۔ ایل پی جی گھریلو سلنڈر کی قیمت میں بھی 200 روپے اضافہ کر دیا گیا ہے۔یوں گھر گھر مہنگائی کا نیا ماتم شروع ہو چکا ہے۔ ڈالر بھی تین سو روپے سے بڑھ گیا ہے۔
ساتھ ہی کاکڑ صاحب نے متعینہ عہدہ سنبھالتے ہی جس شخصیت سے پہلی سیاسی ملاقات کی ہے،اِس اقدام سے ان کے سیاسی رجحانات اور جھکاو کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف وزیر اعظم ہاؤس سے نکل تو گئے ہیں لیکن ان کے آخری بیانات اور بوقتِ رخصتی ان کی بدن بولی سے صاف عیاں ہورہا تھا کہ وہ دل کڑا کرکے اقتدار کے ایوانوں سے نکل رہے ہیں۔
شہباز شریف سمیت نون لیگی وفاقی وزرا کااقتدار سے نکل کر نئے انتخابات کے میدان میں نکلنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ اِسی لیے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی بھی کسی واضح تاریخ کا اعلان نہیں کیا جارہا تھا۔ وہ بادلِ نخواستہ ہی ایوانِ اقتدار سے نکلے ہیں۔
شہباز شریف 16ماہ وزارتِ عظمی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ یہ مگر واقعہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اگر کچھ خطرناک فیصلے کرکے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی نہ مارتے اور اسٹیبلشمنٹ کو خود سے دور نہ کرتے تو شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کی باری نہیں آ سکتی تھی ۔
شہباز شریف کی دوسری خوش بختی یہ تھی کہ جب وزیراعظم بننے کی گھڑی سر پر کھڑی تھی، نون لیگ اور عوام کے اصل قائد بوجوہ ملک ہی میں نہیں تھے۔ یوں اقتدار کا ہما ایک بار پھر شریف خاندان ہی کے ایک فرد کے سر بیٹھ گیا۔
شہباز شریف کا وزیراعظم بننا اِس امر کی بھی واضح اور بین دلیل تھی کہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے ان کی گاڑھی چھنتی ہے۔ پرانے یارانے بالآخر کام آ گئے۔ شاید اِسی لیے اقتدار کے آخری دن انھوں نے صحافیوں کے درمیان برملا کہا:میں 30سال سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہوں۔ جب عوام میں اِن الفاظ کا ردِ عمل سامنے آیا تو نون لیگ کی ترجمان محترمہ اورنگزیب اِن الفاظ کی اپنے انداز میں توجیحات کرتی تو پائی گئیں مگر شہباز شریف نے اپنے الفاظ کی وضاحت نہیں کی۔
اِس سے پہلے بھی شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ سے اپنے گہرے تعلقات کا اعتراف کر چکے ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی بھی اِسی اسلوب میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ون پیج کی کہانی بیان کرتے رہے ہیں۔
آج عوام بیک زبان کہہ رہے ہیں کہ سبکدوش حکومت کا دوربد ترین مہنگائی اور معاشی ابتلا کی پہچان تھا۔ آیندہ انتخابات میں یقینا عوام سبکدوش حکومت کے دیے گئے دکھوں کو یاد رکھیں گے۔
شہباز شریف سولہ ماہ قبل وزیراعظم بنے تھے توانھوں نے عوام کی بہتری اور بہبود کے بلند بانگ دعوے کیے تھے لیکن عوامی تاثر یہی ہے کہ عوام سے کیا گیا کوئی وعدہ وہ پورا نہ کر سکے۔
شہباز شریف اقتدار سے رخصتی کے ایام میں متعدد بار اِس توقع کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر عوام نے دوبارہ موقع دیا تو وہ عوام کی تقدیر بدل دیں گے۔ عوامی تاثر یہ ہے کہ اتحادی حکومت نے اپنے سولہ ماہانہ اقتدار میں اپنی سیاسی تقدیر تو خوب بدلی مگر وہ عوامی تقدیر بدلنے میں ناکام رہی۔ جس طرح چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے پونے چار سالہ اقتدار کے دوران قدم قدم پر وعدہ شکنیاں کیں، شہباز شریف بھی عوام سے کیے گئے وعدوں کو بے محابہ توڑنے میں اپنے پیشرو سے کسی طرح کم نہیں رہے ۔وعدہ پورا کرنا لیڈر کا شیوہ اور اولین فریضہ ہے ۔
بات بات پر اللہ کے فضل و کرم کی تکرار کرنے والے شہباز شریف نے اپنے وعدے ایفا نہ کر سکے۔ تقریبا چار سال قبل ان کے بڑے بھائی صاحب بغرضِ علاج بیرونِ ملک گئے عدالت سے وعدہ کیا گیا تھا کہ چار، پانچ ہفتوں کے اندر اندر وہ برطانیہ سے واپس وطن آ جائیں گے۔
آج اِس وعدے کو کیے ہوئے چار سال گزرنے والے ہیں مگر وہ اس کے مطابق وطن واپس نہیں آئے جس ملک کے اہلِ اقتدار ہی وعدہ شکنیوں کے خوگر ہوں، اس ملک کے عوام سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ بھی اپنے کسی وعدے کو پورا کریں گے ۔
عمومی تاثر یہ ہے کہ اپنی وعدہ خلافیوں پر سیاستدانوں کو ہر گز کوئی تاسف نہیں ہے۔ عوام کو وعدوں کے لالی پاپ دے کر( اور وعدے توڑ کر) اقتدار کے تخت پر بیٹھنا ہمارے حکمران اپنی چالاکی سمجھتے ہیں ۔یہ چالاکی کی سیاست شہباز شریف نے بھی کی اور وہ یقینا اِس پر اِتراتے بھی ہوں گے ۔
اتحادی حکومت سولہ ماہ قبل اقتدار کے سنگھاسن پر اس وعدے اور دعوے پر آئے تھے کہ پچھلے حکمران نے مہنگائی کرکے غریب عوام کا جینا حرام کر رکھا تھا۔اتحادی حکومت مہنگائی بھی کم کرے گی، روزگار بھی بڑھائے گی اور ملکی معیشت بھی درست ہو گی۔ شہباز شریف نے اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو سستا آٹا دینے کا بلند بانگ دعوی اور وعدہ کیا تھا۔
سولہ ماہ بعد جب شہباز شریف اقتدار سے رخصت ہوئے تو معلوم ہوا کہ ان کی حکومت سنگین مہنگائی سے لوگوں کے کپڑے بھی اتروا چکی ہے۔
جب وہ اقتدار سے رخصت ہوئے تو آٹے، روٹی، گھی، چینی، پٹرول، ڈالراور جملہ خورونوش کی ہر شئے کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر چکے تھے۔ کیاایسی جماعتیں دوبارہ اقتدار میں آ کر عوام کی تقدیر بدلیں گی؟ کیا عوام ان جماعتوں کے امیدواوں کو ووٹ دے کر کامیاب کرائیں گے؟
سبکدوش حکومت کے سولہ ماہ دل دہلا دینے والی تصویر ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اتحادی حکومت نے اپنے سولہ ماہ کے اقتدار میں غریب عوام کی ناک کی لکیریں نکلوا دیں ۔
اتحادی حکومت نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے آئی ایم ایف کی حیات کش اور عوام دشمن شرائط جس طرح آنکھیں بند کرکے مانی اور تسلیم کی ہیں، پاکستان کے اکثریتی عوام اِس پر خون کے گھونٹ پی کررہ گئے ہیں۔ اتحادیوں نے عوام کی خوشنودی اور خوشی کے برعکس طاقتوروں کی خاطر داری اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنے اقتدار کے سولہ ماہ گزار دیے ۔
اب نون لیگ اور نوازشریف کو ووٹ لینے کے لیے بھی شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کے پاس جانا چاہیے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہاں پہنچنے پر وہ اپنی دِلی مراد پا بھی جائیں۔ یہ حقیقت مگر اٹل ہے کہ سابق حکومت نے اپنے اقتدار کے سولہ مہینے جس طرح گزارے ہیں، آج اتحادی جماعتوں کا دامن عوام کی محبتوں سے خالی ہے۔
وہ کس برتے اور دعوے کے ساتھ عوام کے سامنے ووٹ لینے کے لیے اپنی جھولی پھیلا سکیں گی؟نون لیگی لیڈر ،شاہد خاقان عباسی، نے کہا ہے : پچھلے پانچ برسوں میں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی جو دو حکومتیں آئی ہیں، یہ پاکستان کی بدترین اسمبلی اور بدترین حکومتیں تھیں۔ اتحادی حکومت کی سولہ ماہ کی حکومت پر اِس سے بہتر اور بلیغ تبصرہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس