شادمانی کے ساتھ ذمہ داری کا ترازو : تحریر کشور ناہید


دو ماہ سے ہمارے سارا میڈیا، سبھی اخبار اندر کی خبر کہہ کر کبھی دبئی ، کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد اور آخر لندن سے سند لیتے رہے۔ پیر کی پوزیشن دیتے ہوئے نہ معلوم کتنے پھیرے اور کتنوں نے بارگاہ لندن میں حاضری دی۔ اب جو لوگ اخبار میں اشتہاروں کے علاوہ کچھ بھی نہ ہونے کے باوجود اخبار خریدتے ہیں، دو منٹ بعد اخبار ردی ہوجاتا ہے کہ اس میں چارچار صفحات پر سندھ کی کارکردگی اور کبھی پاکستان کے وزیراعظم کی سولہ مہینوں کی کارکردگی کے توصیفی صفحات دیکھتے رہے۔ اب میں سوچ رہی ہوںکہ نگراں میں تو لندن کے احکامات راکھ کی طرح اڑا دیئے گئے۔ اب ان اشتہاروں کے پیسوں کی وصولی کس سے ہوگی اور بے چارے صحافیوں کو پیسے کیسے ملیں گے۔ تو اندازہ غلط ہوا ۔ پچھلے دو ماہ میں کراچی سے دبئی، دبئی سے لاہور پرائیویٹ جہاز آتے جاتے اور ہاٹ لائن پر لندن باتیں ہوتی رہیں۔ ایک طرف تین پارٹیاں اور دوسری طرف راجہ ریاض جیسے پنجابی زبان کے بھولے، اتنے بھولے نہیں نکلے حالانکہ وہ تو صرف نامہ بر تھے، قاصد تھے جسے ہم اردو نما انگریزی میں کیریئر کہتے ہیں۔ بہرحال یہ سب آنیاں اور جانیاں دیکھتے رہے کہ اب رہنما کریں کس کو۔ نگراں وزیراعظم کے حوالے سے اس قدر معلوم ہے کہ کاکڑ صاحب ایک تو این جی او سیکٹر میں کام کرتے رہے ہیں۔ انہیں عوام کا حال معلوم ہے، دوسری خوشی کی بات ہے کہ وہ کتابوں سے محبت رکھتے ہیں، کتابوں کے خالق کو وہ جانتے کہ نہیں، شاید عطا شاد کا کلام بھی یاد ہو۔

شاعری کو تو چھوڑیے کہ آپ کا کام تو آبگینے کی طرح نازک ہے، پہلی بات تو یہ آپ کے صوبے کی مردم شماری کم دکھائی گئی ہے۔ غریبوں کو صرف ایک ہنر آتا ہے، وہ ہے بچے پیدا کرنا۔ غیر فطری اعداد دکھائے گئے ہیں۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ آدھے سے زیادہ بلوچستان میں دور دور تک پتہ تو کیا سڑک، نہ آبادی کے لئے کوئی منصوبہ، سی پیک بلوچستان کے لئے ہنوز ایک خواب ہے۔ ابھی تک وہی دھول، سڑک تک نہیں۔ بلوچستان گوادر یونیورسٹی لاہور، یہ اعلان کتنا مضحکہ خیز ہے۔ لاپتہ افراد ایک طرف، اغوا ہونا دوسری طرف اور تیسری طرف وہ دہشت گردی کہ جو ایوب خان کے زمانے سے شروع ہوئی، اس میں مسلسل اضافہ ہوا۔ آپ کہیں گے یہ کوئی نئی بات ہے۔ حالانکہ نوابوں کے ذاتی قید خانوں میں کون کون بند کیا جاتا ہے۔ جو چند یونیورسٹیاں ہیں وہاں ہر روز کیا ہوتا ہے سوائے پڑھائی کیبلکہ اب تو پورے پاکستان میں یونیورسٹیاں آئے دن بند رہتی ہیں۔ انتخاب کرانا، ہر سیاست دان کا امتحان رہا ہے۔ اس پھیلی سیاہی کو روشنی میں بدلیں، عورتوں اور گوادر کے مچھیروں کی اعلی بستیاں ان تین ماہ میں بن جائیں ۔ جیسے فیروز خان نون کا نام گوادر کو حاصل کرنے پر تاریخ میں مقام حاصل کر رہا ہے۔ اپنے نام کے ساتھ اس انوار کو زندہ کریں جو آپ کے نام کا حصہ ہے۔ وقت ملے تو جونیجو صاحب کا طرز حکومت دیکھ لیں۔ ان کا انجام دیکھیں۔ آپ یہ مشکل کام مت کریں۔ بس پاکستان میں 1970کی طرح انتخابات کروا دیں، یہی آپ کی زندگی کا روشن باب ہوگا۔

آپ ان تین مہینوں میں ایک احسان اور کردیں۔ وہ خواتین جو تین مہینوں سے بلاوجہ زندانوں میں ہیں، ضمانت کیوں نہیں ہوسکی۔ اگر ملزم ہیں تو ان پر مقدمہ چلائیں، ان کی ضمانت فورا منظور کریں۔ یہ ہمارے وکیل کیوں نہیں بولتے۔ یہ نظربندی ہر قانون کے خلاف ہے۔ اگر میں حد سے نہیں بڑھ رہی تو التماس ہے کہ کمزور اور بوڑھے پرویز الہی کو بھی رہا کردیں۔ جہاں تک اثاثہ جات کا تعلق ہے، اس کی فہرست بھی طویل ہے۔ نوجوانوں کو سامنے لانے کے لئے ان کی یونینز بحال کیجئے اور خواجہ سراوں کو انسان سمجھتے ہوئے مساوی شناختی کارڈ جاری کروایئے۔ آپ کے کندھوں پر بہت بڑا بوجھ 3کروڑ بچے ہیں جو اسکول نہیں جاتے۔ الیکشن کی تیاری کے ساتھ ان کے لئے سنجیدگی سے کمیٹی بنائیں جو شفقت محمود کی نصاب کمیٹی کی طرح نہ ہو۔ آپ کو یہ تو معلوم ہوگیا ہوگا کہ جانے والوں نے اپنے حامیوں کو خوب ترقیاتی فنڈز جاری کئے ہیں، بالکل اسی طرح 14اگست کے اعزازات کی تو مٹی پلید کردی ہے۔ یک مشت 60افراد کو حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ ایک طرف افتخار عارف اور دوسری طرف قائم علی شاہ…. دونوں کو یکساں اعزاز خیر یہ تومشتے نمونہ از خروارے …. منہ کا مزا بدلنے کے لئے۔

کاکڑ صاحب نے حلف اٹھایا، بڑی مشکل اور صبر کے ساتھ شہباز شریف کو وزیراعظم ہاؤس سے رخصت کیا۔ شام پڑ گئی تھی پھر بھی جاتے وقت، سلامی لے کر ہی اپنے 16مہینوں کی کارکردگی پہ پوری طرح بریفنگ کاکڑ صاحب کو نہ دے سکے۔ البتہ یہ کہہ گئے کہ جن کے ساتھ میں نے کام کیا، ان کا خیال رکھنا۔ چاہے بلوچستان میں وہی کچھ ہونے دو، جو 75سال سے ہو رہا ہے۔ یہ وہی پاکستان کا خطہ ہے جس کے بارے میں ہر آنے، جانے والا کہتا رہا ہے کہ ہم تو معدنیات میں مالا مال ہیں۔ ریکوڈک کی مثال سامنے ہے۔ پھر بھی غیر ملکیوں کو، ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح دعوت دیئے جا رہے ہیں کہ تشریف لایئے۔ مزدوروں کی کھیپ تیار ہے، آپ جیسا چاہیں ان غلاموں سے کام لیں اور جو کچھ ساتھ لے جانا چاہیں، لے جائیں۔ پہلے سے خبر نہیں تو ذرا سی پیک اور گوادر بندرگاہ کے لئے چین کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی فائلیں بھی (اگر غائب نہیں ہوئیں) تو نکلوا کر اپنے معاشی نظام کی ہلکی سی ایک تصویر دیکھ لیں۔

تھوڑی بہت سوچ والے شخص کو بھی معلوم ہے کہ بلوچستان میں اب تک ٹارچ کی روشنی میں آپریشن کئے جاتے ہیں۔ اب تک لڑکیوں کے اسکول ہیں ہی کم اور جو ہیں وہاں کیا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ لڑکیوں کے اسکولوں میں غسل خانے ہیں ہی نہیں۔ اس لئے بہت سی لڑکیاں پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں۔ بلوچستان کی دولت ایک طرف ماشا اللہ اور غربت دوسری طرف،وہاں قبائلی جرگے اور لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کو غیرت مندی کہا جاتا ہے۔ اللہ آپ کوہمت دے اورآپ کام کریں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ