تقسیمِ ہند کا ایک تحیر خیز انفرادی منصوبہ : تحریر الطاف حسن قریشی


آل انڈیا مسلم لیگ کا دو روزہ سالانہ اجلاس( 29 تا 30 دسمبر 1930) الہ آباد میں منعقد ہوا۔ حکیم الامت اور شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال نے اس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت فرمائی اور انگریزی زبان میں نہایت ایمان افروز خطبہ دیا۔ اس میں شمال مغربی ہندوستان میں مسلم ریاست کے قیام کی تجویز دی گئی تھی۔ تب ہندوستان 1909 اور 1919 کی آئینی اصلاحات، نہرو رِپورٹ اور سائمن کمیشن کے قضیے سے گزرنے کے بعد گول میز کانفرنس (1930-33) کے نیلام گھر میں داخل ہو چکا تھا ،جہاں اس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہونا تھا۔ ہم خطبہ الہ آباد کے معرک الآرا نکات کی تلخیص پیش کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہندوستان پر برطانیہ کا اقتدار قائم ہونے کے چند برس بعد ہی متعدد برطانوی خردمند اِس امر کی نشان دہی کرنے لگے تھے کہ ہندوستان میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہیں جن کا وجود تسلیم کرنا اور انہیں اقتدار سنبھالنے کے قابل بنانا آنے والے وقتوں کے لیے ناگزیر ہو گا۔سب سے پہلے ایک انقلابی سیاست دان مسٹر جون برائٹ (John Bright) نے 1877 میں یہ تصور پیش کیا کہ انڈیا کے مختلف صوبوں کی اِس طرح تشکیل کی جائے کہ چھ سات آزاد رِیاستیں قائم ہو جائیں جنہیں بالآخر اِقتدار منتقل کیا جا سکے۔ چھ سال بعد دسمبر 1883 میں برطانوی شاعر اور مصنف مسٹر ولفرڈ بلنٹ (Wilfrid Blunt) نے ہندوستان کے شمالی حصے کو مسلم ریاست اور جنوبی حصے کو ہندو رِیاست میں تقسیم کرنے کا مشورہ دِیا، مگر برطانوی سامراج برِصغیر کو متحد رکھنے کی 1946 تک سرتوڑ کوشش کرتا رہا۔ تقریبا اسی زمانے میں مسلم مفکرین اور اہلِ قلم ہندوستان میں مسلم ریاست کے قیام سے متعلق سوچتے اور مختلف انداز میں اپنی رائے دیتے رہے۔ ان میں معروف ناول نگار جناب عبدالحلیم شرر، عزیز الدین بلگرامی، نوجوان طالبِ علم چودھری رحمت علی اور خیری برادران کی سنجیدہ کاوشیں قابلِ ذکر ہیں۔خیری برادران نے ہندوستان کی تقسیم کا منصوبہ ایک بین الاقوامی فورم پر 1917 میں پیش کیا، آزادی کی تڑپ، اس کے حصول کی دیوانہ وار جدوجہد کی اور مصائب جھیلے۔ ان کی روح پرور داستان روزنامہ ڈان کے آزادی سپلیمنٹ 14اگست 2014 میں شائع ہوئی۔ ان دونوں بھائیوں عبدالجبار خیری اور عبدالستار خیری کا خاندان جس کا تعلق مکہ مکرمہ کے بنی مخزوم قبیلے سے تھا، وہ مغل حکمراں شاہ جہاں کے دور میں ہندوستان منتقل ہوا۔ اس کی آمد کا مقصد مغل حکمرانوں کو مذہبی تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔ یہ سلسلہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر تک جاری رہا۔ خیری برادران نے دہلی اور علی گڑھ کی درس گاہوں سے فارغ التحصیل ہو کر بیروت یونیورسٹی کا رخ کیا۔ بڑے بھائی عبدالجبار خیری نے وہاں سے ڈاکٹریٹ اور چھوٹے بھائی نے ماسٹرز کیا۔ بعد ازاں عبدالجبار خیری نے یورپین یونیورسٹیوں سے بھی ڈاکٹریٹ کی متعدد ڈگریاں حاصل کیں۔ ان دونوں بھائیوں نے انگریزی، فرانسیسی، جرمن، عربی، ترکی اور اردو میں غیرمعمولی مہارت پیدا کر لی تھی اور بیروت میں مدرس الہند کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا تھا جس کا ایک طالبِ علم صائب سلام لبنان میں نہایت کامیاب سیاسی رہنما کے طور پر مشہور ہوا۔

1915 میں خیری برادران قسطنطنیہ منتقل ہو گئے اور وہاں سے اردو میں ہفت روزہ اخوت شائع کرنے لگے۔ انہیں جب پہلی جنگِ عظیم میں ترکوں کی شکست یقینی نظر آئی، تو وہ سوئیڈن کے راستے روس گئے اور لینن سے ملنے میں کامیاب رہے۔ ان کی باتوں سے متاثر ہو کر لینن نے انہیں یقین دلایا کہ کمیونسٹ روس جلد ہی ہندوستان کو آزادی دلانے میں ایک انتہائی سرگرم کردار ادا کرے گا۔ جنگِ عظیم کے خاتمے پر انہوں نے جرمنی میں سکونت اختیار کی اور جرمن زبان میں مضامین لکھ کر روزی کمانے کا پیشہ اپنایا۔ ان کی تحریروں سے یورپین باشندے اسلام قبول کرنے لگے جن میں دو جرمن خواتین بھی شامل تھیں، ان میں سے ایک کا نام فاطمہ رکھا گیا جن سے عبدالستار خیری نے شادی کی۔ یہ دونوں بھائی دورانِ جنگ مختلف زبانوں میں برطانیہ کے خلاف مہم چلاتے رہے اور یوں انگریزوں کی نظر میں ناپسندیدہ افراد قرار پائے۔ عبدالستار خیری اپنی اہلیہ کے ساتھ ہندوستان آنے میں کامیاب ہو گئے اور وہ علی گڑھ یونیورسٹی میں فرانسیسی اور جرمن زبانیں پڑھانے لگے۔ اِس کے علاوہ انہوں نے سیاست میں بھی سرگرم حصہ لینا شروع کیا اور علی گڑھ مسلم لیگ کے عہدیدار منتخب ہو گئے۔ بعدازاں انہوں نے فاطمہ کی ادارت میں ایک جریدہ Spirit of Time کے نام سے نکالا۔ وہ 1935 میں مسلم لیگ کے پٹنہ اجلاس میں بھی شریک ہوئے اور وہاں اپنا یہ نقطہ نظر پیش کیا کہ مسلمان محض ایک کمیونٹی نہیں، بلکہ ایک جداگانہ قوم ہیں۔ وہ 1944 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے کونسل کے ممبر بھی چنے گئے۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران حکومت نے انہیں گرفتار کر کے جھانسی جیل میں بند کر دیا اور چند ہی ماہ بعد ڈیرہ ڈون جیل منتقل کر دیے گئے۔ یہاں وہ دِن بھر قیدیوں سے سیاسی مسائل پر گفتگو کرتے اور شام کو ان کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلتے جن میں پنڈت جواہر لال نہرو بھی شامل تھے۔اِن واقعات سے عشروں پہلے 1917 میں خیری برادران نے اسٹاک ہوم میں سوشلسٹ انٹرنیشنل کانفرنس میں ہندوستان کی تقسیم پر مقالہ پیش کیا اور مسلمانوں کے جداگانہ وطن کا نقشہ بھی دیا تھا۔ اس میں اودھ (جو بعد میں یو پی کے نام سے صوبہ بنا)، سندھ، کرناٹک، میسور اور دِہلی کے علاقے شامل تھے۔ تین عشروں بعد 1941 میں جب ہندو پریس قراردادِ پاکستان پر بہت لے دے کرنے لگا، تو عبدالستار خیری نے کیمبل بیس مینز (Cambel Basemans) کو پاکستان کے حق میں ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے خط لکھا جو سوشلسٹ انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل تھے۔ عبدالستار خیری کو ان کا پتہ معلوم نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے وہ خط کلیمنٹ اٹیلی کے نام بھیج دیا جو ونسٹن چرچل کی جنگی کابینہ میں وزیر تھے اور چند سال بعد برطانیہ کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے تھے۔ مسٹر اٹیلی نے وہ خط سر بیس مینز کے پتے پر بھیج دیا۔ ان کی جانب سے جواب آیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ خیری برادران نے 1917 میں ہندوستان کی تقسیم کا پلان پیش کیا تھا اور ہم نے اس کی حمایت کی تھی۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ