کیسے کرتے ہیں فیصلے، بھارت کے وزراء اعظم: ایک نئی کتاب…(2) : تحریر افتخار گیلانی


وہ اس حد تک پریشان تھیں، کہ راجیو، سونیا اور ان کے بچوں راہول اور پرینکا کو ملک سے باہر بھجوانے کیلئے وہ کئی صنعت کاروں کے ذریعے پرائیویٹ جیٹ کا انتظام کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ اس کی سن گن جب حکومت کو لگی تو وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی نے حکومتی جنتا پارٹی اتحاد کے روح رواں جے پرکاش نارائین سے مشورہ کیا اور رات کے اندھیرے میں دونوں اندرا گاندھی کے بنگلہ پر پہنچے اور ان کو یقین دلایا کہ ان کا ان کی فیملی سے بدلہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اندرا گاندھی نے ان کو بتایا کہ وہ اپنی پھوپھی وجے لکشمی پنڈت کی طرح پہاڑوں میں ریٹائرڈ زندگی گزارنے جا رہی ہیں۔مگر دونوں لیڈرا ن نے ان کو سیاست میں مستعد اور فعال رہنے کا مشورہ دیا۔ نیرجا چودھری کے مطابق 1977کے انتخابات میںشکست کے بعد اندرا گاندھی کا سیکولرازم پر یقین متزلزل ہوگیا تھا اور انہوں نے اپنی سیاست کو ہندو قوم پرستی میں ڈھالنا شروع کر دیا۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ان انتخابات میں مسلمانوں نے یکمشت ہوکر ان کے خلاف ووٹ دیکر جنتا پارٹی کو کامیاب بنادیا تھا۔ کپل موہن کے ہی ذریعے اندرا گاندھی اور انکے جانشین سمجھے جانے والے فرزند سنجے گاندھی نے ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ کے ساتھ روابط استوار کرنے شروع کر دیے تھے۔ اپنے والد جواہر لال نہرو کے برعکس اندرا گاندھی نے کسی بھی نظریہ سے جڑنے کے بجائے اپنے اور اپنی پارٹی کے مفاد کوبنیاد بنا لیا۔1966 میں پہلی بار وزارت عظمی کا حلف لیتے ہوئے انہوں نے solemnly affirmیعنی سنجیدگی کے ساتھ تصدیق کرتی ہوں  کے الفاظ ادا کئے تھے، جبکہ 1980میں انہوں نے ایشور یعنی بھگوان کے نام پر حلف لیا۔ ان کی سوچ کے محرک ان کے صاحبزادے سنجے گاندھی تھے، جن کے کام کا اسٹائل بھی بہت ہی آمرانہ نوعیت کا تھا۔ اتر پردیش کے کسی علاقہ میں وہ گاڑی چلا رہے تھے اور ان کی بغل میں ویر بھدر سنگھ (جوبعد میں صوبہ کے وزیر اعلی رہے) موجود تھے۔ رات کا وقت تھا اور ان کو راستہ نہیں مل رہا تھا۔گھوم پھر کر وہ وہیں پہنچ جاتے تھے۔ آخر تنگ آکر سنجے نے ویر بھدر سنگھ سے پوچھا کہ راستہ کس طرف ہے؟ اس نے لاعلمی ظاہر کی۔ سنجے نے اس کو گاڑی سے اترنے کا حکم دے دیا۔ جونہی وہ نیچے اترا، گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی چلی گئی اور ویر بھدر سنگھ پوری رات ویران بیابان میں پیدل چل کر کسی گاوں میں پہنچے اور پھر بس لیکر لکھنو روانہ ہوگئے۔ خیریت تھی کہ کسی نے ان کو نہیں پہچانا۔ 1977کے انتخابات میں شکست کے بعد اندرا گاندھی کے حوصلے پست ہو گئے تھے۔ مگر چند ماہ بعد ہی ان کو احساس ہوا کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آسکتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنتا پارٹی کے اندر وزیراعظم ڈیسائی، وزیر داخلہ چرن سنگھ اور وزیر دفاع جگجیون رام کے درمیان رسہ کشی شروع ہو چکی تھی۔کابینہ میں روزانہ ہونے والے جھگڑوں کی کہانیاں اندرا کے پاس پہنچ رہی تھیں۔ پھر آر ایس ایس کے ساتھ سلسلہ جنبانی نے بھی اپنا کام کردکھایا۔ ان کو 1980میں ہونے والے انتخابات میں 543نشستوں میں سے 353نشستیں حاصل ہوگئیں۔ اس جیت کے فورا بعد وہ واپس صفدر جنگ والے بنگلے پر واپس آگئیںاور آتے ہی ہندو پجاریوں اور برہمنوں کو بلا کر ہون کروایا۔ نیرجا کے مطابق اندرا گاندھی کی قریبی دوست پاپل جیاکر رنجیدہ تھیں کہ وزیراعظم بہت زیادہ توہم پرستی کی طرف مائل ہو گئی تھیں۔ جون 1984کو سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹمپل پر فوج کشی کرنے سے قبل اندرا نے اپنے گھرپر مہا مرتویونج یگیہ ایک ماہ تک کروایا۔ اقتدار سے بے دخلی کے دنوں کے دوران انہوںنے ہماچل پردیش کے پالم پور میں واقع چمندا دیوی کے مندر جانا شروع کردیا تھا۔ چمندا دیوی کو ہندو مت میں درگا دیوی کا ایک روپ مانا جاتا ہے۔ درگا طاقت، جنگ، تباہی اورمضبوطی کی علامت مانی جاتی ہے۔ 1971کی جنگ کے بعد خود اندرا گاندھی کو درگا کا خطاب دیا گیا تھا۔ اس مندر میں انہوں نے کئی بار تزک و احتشام کے ساتھ پوجا کروائی اور وہ ایک لفافہ میں ایک سو ایک روپیہ پجاری کے حوالے کرکے دہلی لوٹ جاتی تھیں۔اس کے علاوہ بھی وہ ہر دو ماہ بعد انیل بالی کے ہاتھ پچاریوں کو ایک لفافہ پہنچاتی تھیں۔ جب وہ 1980میں دوبارہ اقتدار میں آئیں تو بالی نے ان کو یاد دلایا کہ انہیں مندر میں حاضری دینی چاہئے۔ آخر مئی 1980کو اندرا گاندھی کے سیکرٹری آر کے دھون نے بالی کو اطلاع دی کہ 20جون کی دوپہر کو وزیراعظم پالم پور پہنچ رہی ہیں۔ بتایا گیا، کہ وزیراعظم کو جموں جانا ہے اور وہاں سے وہ ہیلی کاپٹر میں سیدھے پالم پور چمندا دیوی کے مندر میں حاضری دینگی۔ اس روز ہماچل پردیش کے وزیرا علی اور دیگر کئی اعلی افسران اور وزیر بھی ان کا استقبال کرنے کیلئے پالم پور پہنچ چکے تھے۔ پجاری نے پوجا کرنے کے لئے تمام تیاری مکمل کر لی تھیںکہ اسی دوران اطلاع آئی کہ وزیراعظم نے دورہ ملتوی کردیا ہے۔ پجاری آپے سے باہر ہوگیا۔ مندر کے دروازے پر اس نے وزیراعلی اور بالی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دیوی کا اپمان ہوا ہے، اس کا بدلہ وزیر اعظم کو چکانا پڑیگا۔ ماتا درگا ان حکمرانوں کو معاف نہیں کرتی ہے جو اس کی بے عزتی کرتے ہیں۔بالی نے کسی طرح پچاری کو شانت کرواکے پوجا مکمل کروائی۔ اس کے تیسرے دن اس کا سیکرٹری دوڑتا ہوا آیا اور خبر سنائی کہ دہلی میں اندرا گاندھی کے فرزند اور جاننشین سنجے گاندھی ہوائی حادثہ میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے یہ خبر ریڈیو پاکستان سے سنی ہے۔ انیل بالی دہلی کیلئے روانہ ہوگئے اور دیر رات گئے وزیر اعظم ہاوس پہنچ گئے۔ سنجے گاندھی کی لاش کے سرہانے اندرا گاندھی سمیت فلم اداکار سنیل دت اور ان کی اہلیہ نرگس موجود تھیں۔ بالی کو دیکھتے ہی اندرا نے اسکو سائڈ پر لیجاکر پوچھا کہ کیا دیوی ناراض ہو گئی ہے۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میرا پروگرام کیسے اور کس نے کینسل کروایا۔مجھے بتایا گیا کہ پالم پور میں موسم خراب ہے، اس لئے ہیلی کاپٹر اتر نہیں سکتا ہے۔ بالی نے اس کو کہا کہ وہاں موسم تو بالکل ٹھیک تھا۔ وزیراعلی بھی تو ہیلی کاپٹر سے ہی وہاں آکر انتظار کر رہے تھے۔ یہ کبھی پتہ نہیں چل سکا کہ جموں کے ائیرٹاور کو کس نے پالم پور میں موسم کے خراب ہونے کی خبر دی تھی۔ سنجے کی موت کے بعد اندرا ٹوٹ چکی تھیں۔ دسمبر میں وہ چمندا دیوی کے مندر پہنچیں اور بقول پجاری کے وہ اندر زار و قطار رونے لگیں اور کئی گھنٹوں تک سر جھکا کر آنسو بہاتی رہیں۔ پجاری نے انکو تسلی دیکر کہا کہ آپ کے تو 60کروڑ بیٹے ہیں ، آپ ان کا خیال رکھیں۔ مندر سے واپسی کے بعد وہ بالکل مختلف اندرا تھیں۔ وہ ماں سے پھر واپس وزیر اعظم بن چکی تھیں۔ ان کا اعتماد بحال ہو چکا تھا۔ دہلی واپس آکر وہ سیدھے کانگریس کے اخبارنیشنل ہیرالڈ اور اسکے اردو روزنامہ قومی آواز کی تقریب میں شرکت کرنے پہنچ گئیں۔ اسی تقریب میں راجیو گاندھی نیچے ہال میں کرسی پر برا جمان تھے۔ اندرا نے اسکو اسٹیج پر بلا کر اس کیلئے کرسی رکھوائی۔ یعنی یہ ایک اعلان تھا کہ انہوں نے اپنا جاننشین اور دہلی کے تخت کا وارث ڈھونڈ لیا ہے۔

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز