’’راول راج‘‘ صرف ایک کتاب کا نام نہیں۔ اس کتاب میں صرف راولپنڈی اور اسلام آباد کی تاریخ کو نہیں سمویا گیا بلکہ یہ کتاب آپ کے کان میں یہ سرگوشی کرتی ہے کہ پاکستان کی تقدیر کے بعض اہم فیصلے اسلام آباد میں نہیں بلکہ راولپنڈی میں ہوتے ہیں۔ اس لئے ’’راول راج‘‘ ایک تاریخ بھی ہے اور سیاسی استعارہ بھی۔ کتاب کے مصنف سجاد اظہر صحافی بھی ہیں اور شاعر بھی ہیں۔ میں انہیں بہت عرصے سے جانتا ہوں۔ وہ میرے ایک بہت ہی مشہور جرم کے عینی شاہد بھی ہیں جس کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ مئی 2021ء میں عمران خان کے دور حکومت میں ہمارے ایک صحافی ساتھی اسد علی طور پر کچھ نامعلوم افراد نے ان کے گھر میں گھس کر تشدد کیا۔ اس واقعے کے خلاف نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر صحافیوں نے ایک احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا۔ جمعہ کا دن تھا اور میں کچھ بلوچ انجینئرز کا مسئلہ لے کر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ان انجینئرز کو پیپلز پارٹی کے دور میں آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن میں نوکری دی گئی تھی لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے انہیں نوکری سے نکال دیا تھا۔ یہیں پر مجھے افضل بٹ صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے بتایا کہ اسد علی طور پر حملے کے خلاف مظاہرہ ہے آپ نے ضرور آنا ہے۔ میں نے چیئرمین سینیٹ سے کہا کہ پندرہ بیس منٹ میں واپس آتا ہوں۔ میں پریس کلب پہنچا اور مظاہرین میں شامل ہو گیا۔ تقریباً بیس پچیس منٹ کے بعد میں خاموشی سے چلتا ہوا اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اور چیئرمین سینیٹ میرا انتظار کر رہے تھے۔ ابھی میں گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ سجاد اظہر بھاگتے ہوئے آئے اور کہا بٹ صاحب کہہ رہے ہیں تقریر کئے بغیر نہ جائیں۔ سجاد اظہر کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میں نہ رکتا۔ میں واپس مظاہرے میں آیا تو عاصمہ شیرازی تقریر کر رہی تھیں۔ غیر اعلانیہ سنسر شپ اور صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے واقعات پر میں بھی غصے میں بھرا بیٹھا تھا لہٰذا میں نے کافی جوشیلی تقریر کر ڈالی۔ یہ تقریر نہ کسی ٹی وی چینل پر نشر ہوئی نہ کسی اخبار میں شائع ہوئی لیکن اگلے ہی دن مجھ پر پابندی عائد کردی گئی۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے مجھے ملک دشمن قرار دیدیا لیکن حکومت کے وزراء کا کہنا تھا کہ پابندی ہم نے نہیں راولپنڈی نے لگائی ہے۔ سجاد اظہر مجھے واپس نہ بلاتے تو میں تقریر نہ کرتا اور مجھ پر پابندی بھی نہ لگتی۔ لیکن اچھا ہوا کہ مجھ پر پابندی لگ گئی۔ سجاد اظہر کی وجہ سے بہت سے دوست نما دشمنوں کی اصلیت سامنے آگئی اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ پابندیوں اور ’’راول راج‘‘ کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ راولپنڈی کی تاریخ پر کئی کتابیں میری نظر سے گزر چکی ہیں لیکن دو کتابوں نے خطہ پوٹھوہار اور راولپنڈی کو نئے اور منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ شاہد صدیقی صاحب نے اپنی کتاب ’’پوٹھو ہار، خطہ دل ربا‘‘ میں راولپنڈی کو پوٹھوہار کا شہرِ دل ربا قرار دیا ہے۔ سجاد اظہر نے اپنی کتاب ’’راول راج‘‘ میں خطہ پوٹھوہار کو پانچ تہذیبوں کا جنم بھومی قرار دیا ہے۔ پہلی تہذیب سواں، دوسری وادی سندھ، تیسری ویدک اور چوتھی گندھارا تہذیب ہے۔ پاکستانی تہذیب 1947ء کے بعد شروع ہوتی ہے اور اس تہذیبی سفر کو ’’راول راج‘‘ میں سمویا گیا ہے۔ یہ سفر کم از کم 25 لاکھ سال پہلے شروع ہوا۔ اگر تقابل کیا جائے تو دریائے سواں کی تہذیب بابل، نینوا، موہنجوداڑو، ہڑپا، مصر اور یونان کی تہذیب سے زیادہ پرانی ہے۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ راولپنڈی میں جہاں آج جی ایچ کیو واقع ہے یہاں پہلی فوجی چھاؤنی ایک ہندو راجہ بھاپا راول نے بنائی تھی۔ بھاپا راول 712ء میں آنندپور میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام کالا بھوج تھا لیکن راجستھان میں چھوٹے شہزادے کو راول کہا جاتا ہے اس لئے یہ راول کہلایا۔ بھاپا راول نے میواڑ کی حکومت سنبھالنے کے بعد اپنی سلطنت کو پھیلانا شروع کیا اور قندھار تک پہنچ گیا۔ قندھار سے واپسی پر اس نے راولپنڈی میں ایک فوجی چھاؤنی قائم کی جو آج کے جی ٹی روڈ پر عین اس جگہ تھی جہاں اب جی ایچ کیو ہے۔ اسد سلیم شیخ صاحب کی تحقیقی کتاب ’’نگر نگر پنجاب‘‘ کے مطابق سکندر اعظم یہاں آیا تو راولپنڈی کو ’’امنڈا‘‘ کہا جاتا تھا۔ محمود غزنوی کے دور میں اسے غزنی پور کا نام دیا گیا۔ مغلیہ دور میں یہ شہر سندھ ساگر کہلایا اور پھر گکھڑ سردار جھنڈے خان راول نے اسے راول پنڈی کانام دیا۔ سجاد اظہر بھی اپنی کتاب میں یہی لکھتے ہیں کہ جھنڈا خان کا آبائی گاؤں راول اس مقام پر تھا جہاں آج راول ڈیم ہے۔ راول ڈیم کے پانی میں ڈوبنے والی تاریخ کے آثار اس وقت نظر آتے ہیں جب ڈیم میں پانی کم ہو جاتا ہے۔ جب پاکستان قائم ہوا تو پہلا دار الحکومت کراچی تھا لیکن بری فوج کا ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں تھا۔ 1958ء میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا فیصلہ اسی شہر میں ہوا اور پھر ایوان صدر کراچی سے راولپنڈی آ گیا۔ اس شہر میں دو وزیراعظم ایک ہی جگہ پر شہید ہوئے۔ 1951ء میں لیاقت علی خان اور 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی شہید کیا گیا جبکہ اسی شہر میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی بھی دی گئی۔ اسلام آباد کو نیا دار الحکومت بنانے کا فیصلہ بھی راولپنڈی میں ہوا اور فوج کے ایک سینئر افسر جنرل یحییٰ خان کو کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کا پہلا سربراہ بنایا گیا۔ انگریزوں نے 1851ء میں یہاں باقاعدہ فوجی چھاؤنی قائم کی۔ انگریز فوجیوں کیلئے یہاں ایک بازار حسن بھی قائم کیا گیا جہاں طوائفوں کو کمرے بنا کر الاٹ کئے گئے۔ یہ بازار حسن وہاں قائم تھا جہاں آج نرنکاری بازار ہے اور پھر یہ قصائی گلی تک پھیل گیا۔ سجاد اظہر نے اسلام آباد کے ایک گاؤں سید پور کے بارے میں بتایا کہ اس کا قدیم نام ’’رام کنڈ‘‘ ہے۔ یہاں پر رام جی، سیتا جی، لکشمن جی اور ہنومان جی نے بن باس کے دوران قیام کیا۔ شاہ اللہ دتہ کے غاروں کے متعلق بتایا ہے کہ ان میں سکندر اعظم، چندر گپت موریہ اور اشوک اعظم کے زمانے کی تاریخ چھپی ہے۔ آج جہاں اسلام آباد شہر ہے یہاں شکر پڑیاں سمیت 85دیہات آباد تھے۔ جہاں لوک ورثہ ہے یہ شکر پڑیاں گاؤں تھا، جہاں وزارت خارجہ ہے یہاں کٹاریاں گاؤں تھا اور آبپارہ مارکیٹ کی جگہ باغ کلاں آباد تھا۔ ایک تاریخ مٹا کر نئی تاریخ بنائی گئی۔ ’’راول راج‘‘کے آخر میں بنی گالہ کی تاریخ بیان کی گئی ہے جہاں عمران خان کے گھر کو سی ڈی اے نے 12لاکھ جرمانے کےعوض ریگولرائز کر دیا۔ بنی گالہ کے نیچے ایک راول گاؤں تھا جو راول ڈیم میں ڈوب گیا۔ پرانے زمانے میں یہاں انسانوں کی قربانی دی جاتی تھی۔ قدیم سنسکرت میں پنڈی کے معنی انسانوں کی قربان گاہ کے ہیں اس لحاظ سے دیکھیں تو سجاد اظہر نے راولپنڈی کی جو تاریخ تلاش کی ہے اس کے مطابق اس شہر کے نام کا مطلب ’’راول کی قربان گاہ‘‘ ہے۔ اس شہر میں 1947ء کے بعد جمہوریت کو چار دفعہ قربان کر نے کا فیصلہ ہوا لیکن اس قربانی کا نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں نکلا۔ امید ہے کہ ’’راول راج‘‘ بہت جلد عوامی راج میں تبدیل ہو جائے گا اور انسانوں کو قربان کرنے کی روایت بھی ختم ہو جائے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ