گو کہ 2014کے بعد سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وزارت عظمی کے دفتر کے کام کاج میں کافی تبدیلیاں کی ہیں مگر عموما اندرا گاندھی سے من موہن سنگھ تک سبھی وزرائے اعظم اپنا دن کا معمول علی الصبح چھ بجے خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کی بریفنگ سے شروع کرتے رہے ہیں۔ گھٹنے کے آپریشن سے قبل آنجہانی اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم ہاوس کے وسیع و عریض لان میں ہر صبح واک کرتے تھے اور اس واک کے دوران ہی پہلا آدھا گھنٹہ انیٹلی جنس بیورو کے سربراہ اور پھر خارجی خفیہ ایجنسی را کے سربراہ باری باری ان کو ملک اور دنیا بھر میں اس روز ہونے والے واقعات سے پیشگی آگاہ کرتے تھے۔یعنی جب وہ دفتر میں بیٹھتے تھے تو ان کو ملک اور دنیا بھر میں پیش آنے والے واقعات کا اندازہ ہوتا تھا اور ان پر اپنی حکومت کی طرف سے رد عمل تیار رکھتے تھے۔ مجھے یا د ہے کہ 20جون 2001کو جنرل پرویز مشرف صدر رفیق تارڑ سے استعفی لیکر خود صدر کے عہدے پر فائز ہو رہے تھے تو اس کی پیشگی اطلاع صبح سویرے کی بریفنگ میں را نے واجپائی کو دی تھی۔ انہوں نے قبل از وقت ہی مشرف کو صدر بننے کی مبارکباددے دی جس سے وہ ہکا بکا رہ گئے۔ اب یہ واجپائی کی زبان پھسل گئی تھی، یا جان بوجھ کر انہوں نے مشرف کو باور کرایا کہ ان کی ہر حرکت پر ان کی نظر ہے، کہنا مشکل ہے؟ خیر اس وقت کالم کا موضوع بھارت کی معروف سیاسی رپورٹر نیرجا چودھری کی حال ہی میں شائع کتاب HOW PRIME MINISTERS DECIDE ہے۔ کئی دہائیوں سے بھارتی سیاست کور کرنے والے صحافیوں میں نیرجا چودھری کانام نینا ویاس، پورنما جوشی، صبا نقوی، آرتی جیراتھ، قربان علی، رشید قدوائی، پربھو چاولہ اور ونود شرما وغیرہ کے ساتھ صف اول کے ان صحافیوں میں شامل ہے جو سیاسی نبض پرکھنا جانتے ہیں اور جنہوں نے سیاست کی باریکیوں کو کور کرکے سمجھا بھی ہے ۔ ان کی رپورٹوں، تجزیوں کے بین السطور سیاست کے اونٹ کی کروٹ کا اندازہ ہوتا رہتاہے۔ نیرجا فی الوقت انڈین ایکسپریس اخبار کی کنٹریبیوٹنگ ایڈیٹر ہیں اور ان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ پچھلے10عام انتخابات انہوں نے گراونڈ سے کور کئے ہیں۔ 491صفحات پر مشتمل اس کتاب میں انہوں نے اندرا گاندھی سے لیکر من موہن سنگھ کے ادوار اور ان کے کام کرنے کے اسٹائل کا احاطہ کیا ہے۔ ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے مودی کو کیوں نظر انداز کیا ہے؟ تو انکا کہنا تھا کہ موجودہ وزیر اعظم کے ارد گرد کے افراد نے ان سے تعاون کرنے سے گریز کیا اور وہ فی الحال آن ریکارڈ نہیں آنا چاہتے ہیں۔ ویسے سیاسی رپورٹنگ کی تربیت کے دوران بتایا جاتا تھا کہ کسی بھی لیڈرکے انٹرویو کے آف ریکارڈ حصے یا دن بھر کی رپورٹنگ کے معمول کے دوران لیڈران کے ساتھ گفت و شنید کے ایسے حصے ، جن کو اسوقت میڈیا کی زینت نہیں بنایا جاسکتا ہو، کو ایک ڈائری میںنوٹ کردینا چاہئے۔ ایک عرصے کے بعد یہ ایک بہت بڑا خزانہ ثابت ہو سکتا ہے۔ مختلف وزرا اعظم کے قریبی افراد کے ساتھ گفت و شنید کے علاوہ نیرجا چودھری نے اپنی کتاب میں شاید اسی ڈائری کا استعمال کیا ہے۔ بھارت میں تین وزرا اعظم گلزاری لال نندہ، اندر کمار گجرال اور من موہن سنگھ کا تعلق پنجاب سے تھا۔ مرارجی ڈیسائی اور نریندر مودی گجرات سے سیاست میں آئے۔ ایچ ڈی دیوی گوڑا اور نرسمہا راؤ جنوبی بھارت کے صوبوں بالترتیب کرناٹک اور آندھرا پردیش سے دہلی وارد ہوئے۔ 14میں سے آٹھ وزرا اعظم کا تعلق ایک ہی صوبہ یعنی اتر پردیش سے تھا۔ ان میں جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، چرن سنگھ، راجیو گاندھی، وی پی سنگھ، چندر شیکھر اور اٹل بہاری واجپائی کا تعلق اسی صوبہ سے تھا۔ یعنی مشرقی بھارت بنگال، اڑیسہ یا شمال مشرقی صوبوںسے ابھی تک کوئی دہلی کی گدی پر فائز نہیں ہوا ہے۔ کتاب میں کئی دلچسپ واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ بھارت کی مضبوط ترین وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ملاقاتیوں پر نظر رکھنے کیلئے ان کے وزرا وزیر اعظم دفتر کے چپراسیوں کو رقوم دیتے تھے تاکہ وہ ملاقاتیوں کے بارے میں ان کو باخبر رکھیں۔ ہریانہ کے ایک وزیر اعلی بھجن لال، جو مرکزی کابینہ میںبھی وزیر رہے، جب بھی وزیر اعظم کے دفتر یا سرکاری رہائش گاہ پر آتے تو وہاں مالی سے لے کر چپراسیوں، کچن میں کام کرنے والوں کو خوب نوازتے تھے۔ اس کے بدلے وہ ان کیلئے بطور مخبر کام کرتے تھے اور ملاقاتیوں کے بارے میں ان کو آگاہ کرتے تھے۔جب کبھی کوئی صحافی اندرا گاندھی کا انٹرویو لیتا تھا، موبائل فون کا زمانہ تو نہیں تھا، دفتر پہنچتے ہی بھجن لال کا فون آتا تھا۔ صحافی حیران و پریشان اور بھجن لال بھی اپنی اہمیت جتانے کے لئے اس کو یقین دلاتے تھے کہ اس انٹرویو کے لئے اور اسکو وقت دینے سے قبل اندراگاندھی نے ان سے مشورہ کیا تھا ۔ کتاب کے مطابق 1977کے عام انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہونے کے فورا بعد ہی اندرا گاندھی نے صفدر جنگ روڈپر واقع اپنی رہائش گاہ پر صنعت کار اور اپنے معتمد ین کپل موہن اور انیل بالی کو بتایا تھا کہ وہ سیاست سے ریٹائرڈ ہوکر ہماچل پردیش کے پہاڑوں میں بقیہ زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ وہ اپنی توجہ اب کتاب لکھنے پر مرکوز کرنا چاہتی ہیں۔ ان کو معلوم تھا کہ اب نئی حکومت ان کو اس بڑے سرکاری بنگلہ میں رہنے نہیں دیگی۔ وہ اس بنگلہ میں موجود قیمتی کشمیری قالینوں اور جمع کی ہوئی ہاتھ سے بنائی لاتعداد اشیا کے بارے میں فکر مند تھیں۔ وہ اب ممبر پارلیمنٹ بھی نہیں تھیں۔ کپل موہن، جوشراب کی ایک مشہور کمپنی کے مالک تھے، نے اس مشکل کو حل کرتے ہوئے اندراکو آفر دیکہ وہ اس پورے ساز و سامان کو پیک کرواکے اپنی کمپنی کے گودام میں رکھوا دیں گے۔ جب وہ نیامکان لیں گی تو وہ اس سامان کو وہاں پہنچا دیں گے۔ خیر اندرا گاندھی کیلئے ان کے ایک دست راست محمد یونس جو خان عبدالغفار خان کے پرائیویٹ سیکرٹری رہ چکے تھے نے ولنگٹن اسٹریٹ پر بنگلہ خالی کرواکے ان کو وہاں شفٹ کروایا۔ اس وقت کی جنتا پارٹی حکومت نے بھی اس پر کچھ زیادہ اعتراض نہیں کیا۔ اس دوران اندرا گاندھی نے اپنے بڑے بیٹے راجیو گاندھی اور ان کی فیملی کو ممبئی میں کسی دوست کے پاس رہنے کیلئے بھیجا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ان پر اب جو عتاب نازل ہونے والا ہے، اس کی زد میں فیملی بھی آسکتی ہے۔ وہ اس حد تک پریشان تھیں کہ راجیو، سونیا اور ان کے بچوں راہول اور پرینکا کو ملک سے باہر بھجوانے کیلئے وہ کئی صنعت کاروں کے ذریعے پرائیویٹ جیٹ کا انتظام کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ اس کی سن گن جب حکومت کو لگی تو وزیراعظم مرارجی ڈیسائی نے حکومتی جنتا پارٹی اتحاد کے روح رواں جے پرکاش نارائین سے مشورہ کیا اور رات کے اندھیرے میں دونوں اندرا گاندھی کے بنگلہ پر پہنچے اور ان کو یقین دلایا کہ ان کا ان کی فیملی سے بدلہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔(جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز