نگران وزیر اعظم ، کون جیتا کون ہارا : تحریر مزمل سہروردی


نگران وزیراعظم کے اعلان کے بعد ایک سوال اہم ہو گیا ہے کہ نگران وزیر اعظم کس کا آدمی ہے۔ کیا سیاسی جماعتیں اپنا نگران وزیراعظم لانے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ کیا اسٹبلشمنٹ اپنی مرضی کا نگران وزیر اعظم لانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

یہ ہر دفعہ باپ پارٹی کی لاٹری کیوں نکل آتی ہے۔ عمران خان کی حکومت میں بھی باپ پارٹی کی مرکزی حیثیت تھی۔ اب پی ڈی ایم میں بھی باپ کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ اور اب تو وزیراعظم بھی باپ پارٹی سے آگیا ہے۔ باپ سے لازوال محبت کیوں۔

پہلی بات میں یہ نہیں سمجھتا کہ نگران وزیر اعظم کے اس کھیل میں کسی کی جیت اور کسی کی ہار ہوئی ہے۔لیکن یہ طے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ سمجھیں کہ کھیل کن فریقین کے درمیان تھا۔ میری رائے میں دو ہی فریق تھے۔ ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ۔ میں سمجھتا ہوں نہ اسٹبلشمنٹ کی جیت ہوئی ہے اور نہ ہی ن لیگ کی ہار ہوئی ہے۔

اس کھیل کا سب سے دلچسپ پہلو یہی ہے کہ اس میں نہ کوئی جیتا ہے اور نہ کوئی ہارا ہے۔ دیکھا جائے تو نہ کسی کو مکمل جیت اور نہ کسی کو مکمل ہار ہوئی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کی لسٹ میں سے بھی کوئی نہیں بن سکا ہے۔ اور اسی طرح حکمران اتحاد کی پہلی لسٹ میں سے بھی کوئی نہیں بن سکا۔ اس کھیل کے سبھی بڑے کھلاڑی آٹ ہوئے ہیں۔

سب نام ہی ریس سے نکل گئے ہیں۔ اس لیے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے جو نام دیا وہی فائنل ہوا۔ اگر حفیظ شیخ نہیں بن سکے تو اسحاق ڈار بھی نہیں بن سکے۔ اسی طرح جلیل عباس جیلانی بھی نہیں بن سکے۔ صادق سنجرانی بھی نہیں بن سکے۔ اسی لیے تو میں کہہ رہا کہ کوئی بھی فریق مکمل جیت اور مکمل ہار کا دعوی نہیں کر سکتا۔

اب سوال یہ ہو گا کہ یہ نام آیا کہاں سے۔ میں سمجھتا ہوں جب سب اسٹیک ہولڈرز کے پسندیدہ نام جب ریس سے آٹ ہو گئے تو ایسے نام کی تلاش شروع ہو گئی ہوگی جو سب کو قابل قبول ہو۔ جب سب فریق اپنی مرضی کروانے میں ناکام ہو گئے تو انھیں ایسے نام کی تلاش شروع ہو گئی جو سب کو قابل قبول ہو۔ یہی سیاست اور جمہوریت کا حسن ہے۔

اس میں ڈکٹیشن جب ہارجاتی ہے تو مفاہمت کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ جب آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنی بات نہیں منوا سکتے تو پھر درمیان کی راہ تلاش کی جاتی ہے۔ اس لیے نگران وزیراعظم کی دوڑ میں بھی یہی ہوا ہے۔ جب مفاہمت کی ضرورت نظر آئی تو نئے نام ڈھونڈے گئے۔

جب آپ ایسا نام ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں جو آپ کو بھی قابل قبول ہو اور آپ کے متحارب فریق کو بھی قابل قبول ہو۔ ایسی صورت میں آپ کی اور دوسری کی پسند ایک ہو جاتی ہے۔ موجودہ نگران وزیر اعظم بھی ایسی صورتحال میں سے نکل کر آئے ہیں۔

دوستوں کی رائے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے پسندیدہ ہیں، اس لیے وہ اسٹبلشمنٹ کا نام ہیں۔ دوستوں کی رائے میں انوارالحق کاکڑ کو نگران وزیر اعظم بنو اکر اسٹبلشمنٹ نے بازی جیت لی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بندہ باپ پارٹی میں ہو اور اسٹبلشمنٹ کا پسندیدہ نہ ہو۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوست تصویر کا دوسرا رخ بھول رہے ہیں۔

دوست یہ بھول رہے ہیں کہ نگران وزیر اعظم 19جون کو جب ابھی نگران کی دوڑ شروع بھی نہیں ہوئی تھی جام کمال کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز سے مل چکے تھے۔ اس ملاقات میں انوار الحق کاکڑ اور جام کمال نے اگلی سیاست پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر کرنے کے حوالے سے مریم نواز سے تفصیلی بات چیت کی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف بھی اس ملاقات میں لندن سے شریک تھے۔

جہاں بلوچستان کی مستقبل کی سیاست پر تفصیل سے بات ہوئی۔ اس لیے ایسا نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) موجودہ نگران وزیر اعظم کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی تھی۔ سب جانتے ہیں کہ باپ پارٹی میں دو دھڑے بن چکے ہیں۔

اب اگلے انتخابات میں دونوں دھڑے اکٹھے نہیں چل سکتے۔ اس لیے اگر جام کمال اور ان کے ساتھی پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ساتھ چلنے کا جون میں عندیہ دے چکے تھے تو جب انوار الحق کاکڑ کا نام سامنے آیا ہوگا تو ن لیگ کے لیے کافی حد تک قابل قبول ہوگا۔

جب مفاہمتی نام کی تلاش شروع ہوگئی تو یقینا ایسے نام کی تلاش ہوگی جو کم از کم پاکستان مسلم لیگ(ن) یعنی وزیراعظم اور اسٹبلشمنٹ دونوں کو قابل قبول ہو۔ ایسے میں یہ نام سامنے آیا ہوگا۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کھیل میں پیپلزپا رٹی کا کافی نقصان ہوا ہے۔ان کو یہ نام پسند نہیں آیا ہوگا۔ لیکن میں پہلے دن سے اس کھیل میں پیپلزپارٹی کو اسٹیک ہولڈر نہیں سمجھتا تھا۔

ان کی تمام تر اہمیت اور بلیک میلنگ تب تک تھی جب تک حکومت قائم تھی اور اسمبلی موجود تھی۔ جب حکومت ختم ہوگئی اسمبلی تحلیل ہو گئی تو ان کی نہ صرف اہمیت بلکہ بلیک میلنگ ختم ہو گئی۔ کھیل اسٹبلشمنٹ اور ن لیگ کے درمیان ہی رہ گیا۔ ن لیگ کے لیے پیپلزپارٹی کی اہمیت ختم ہوگئی اور اسٹبلشمنٹ کے لیے بھی ن لیگ سے مفاہمت اہم بن گئی۔ ایسے میں پیپلزپارٹی کھیل سے ہی آٹ ہو گئی۔

جیسے جیسے نام فائنل ہونے میں تاخیر ہوئی ویسے ویسے پیپلزپارٹی ریس سے نکل گئی۔ اس کے نام بھی ریس سے نکل گئے۔ جب پورا پاکستان جلیل عباس جیلانی کو نگران وزیر اعظم بنوا رہا تھا میری تب بھی رائے تھی کہ ن لیگ جلیل عباس جیلانی کو کیوں بنائے گی۔

آ پ سوال کریں گے کہ ایک دن تو جلیل عباس جیلانی بن ہی گئے تھے ۔ پھر رہ کیسے گئے۔ کیسے نام ہیڈلائنز اور بریکنگ میں آگیا۔ کہانی یہ ہے کہ جس دن قومی اسمبلی کا آخری اجلاس تھا۔ اس دن ایک صحافی نے بلاول بھٹو سے پوچھا کہ پیپلزپارٹی نے جلیل عباس جیلانی کا نام تجویز کیا ہے تو انھوں نے تصدیق کر دی۔

دوسر ا سوال ہوا کہ کیا وہ نگران بن رہے ہیں تو بلاول نے کہا انشا اللہ لیکن ساتھ ہی کہہ دیا کہ خبر میری طرف سے نہیں چلانی۔ بس کیا تھا پورے میڈیا میں شور مچ گیا۔ لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ آج اسمبلی ختم ہو رہی کل بلاول وزیر خارجہ نہیں ہونگے پھر کیا ہوگا۔

پیپلزپارٹی کو بلوچستان سے کافی امیدیں تھیں۔ پیپلزپارٹی اور بالخصوص آصف زرداری بلوچستان میں اگلی حکومت بنانے کے لیے زور لگا رہے ہیں۔ انوار الحق کاکڑ کا نگران وزیر اعظم بن جانا پیپلزپارٹی کے اس کھیل کو ناکام بنا دے گا۔

اب بلوچستان میں اگر کچھ کھیل بنے گا بھی تو ن لیگ کا بنے گا۔ اب باپ پارٹی کے جس دھڑے کو وزارت عظمی مل گئی ہے وہ ن لیگ کے ساتھ چلنے کا عندیہ دے چکا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وزیر اعلی عبدالقدوس بزنجو کے لیے مشکل دن شروع ہو گئے ہیں۔

جام کمال دوبارہ کھیل میں آگئے ہیں۔ میری رائے میں صادق سنجرانی کے لیے بھی یہ درست نہیں۔ جب صادق سنجرانی وزیر اعظم شہباز شریف کو مل رہے تھے تو میڈیا کہہ رہا تھا کہ وہ نگران وزیر اعظم بن رہے ہیں۔

حالانکہ اصل میں وہ انوار کاکڑ کے حامی نہیں تھے بلکہ وہ عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے جام کمال کو نکالا تھا اس لیے وہ روکنے والوں میں شامل تھے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس