رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں پانچ سال سے منتخب حکومت نہیں ہے۔ اگرچہ حکومت خود یہ دعوی کرتی ہے کہ خطے میں امن لوٹ آیا ہے اور وہ بین الاقوامی تقریبات کا بھی اہتمام کرتی ہے، لیکن اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر اس کی ہچکچاہٹ واضح نظر آتی ہے۔مقامی سیاست دانوں کا دعوی ہے کہ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو جب تک یقین نہیں آئے گاکہ وہ مسلم اکثریتی علاقے میں من مانی حلقہ بندی اور دیگر ذرائع سے حکومت پر قابض نہیں ہوتی، وہ تب تک انتخابات کے انعقاد سے گریز کریں گے۔ شہریوں کے اس گروپ نے حد بندی کمیشن جس نے مئی 2022 میں اپنی حتمی رپورٹ پیش کی تھی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اس نے اکثریتی مسلم کمیونٹی کو بے اختیار کرنے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 107 سے بڑھا کر 114 کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ سات نئی نشستوں میں سے چھ ہندو اکثریتی جموں کو اور صرف ایک مسلم اکثریتی وادی کشمیر کو دی گئی۔ وادی کشمیر میں ریاست کی کل آبادی کا 56.15% حصہ رہتا ہے۔ مگر اس کیلئے اسمبلی میں محض 47 نشستیں مختص کی گئیں، جب کہ ہندو اکثریتی جموں ڈویژن جہاں ریاست کی 43.85% آبادی رہتی ہے، کو 43 نشستیں دی گئی ہیں۔اس حساب سے کشمیر کی سیٹیں 57ہونی چاہئے تھیں۔ ریاست کے سابق وزیر خزانہ حسیب درابو نے اس گروپ کو بتایا وادی کشمیر کا ایک ووٹر جموں خطے کے 0.8 ووٹروں کے برابر کر دیا گیا ہے۔ یہ نئی طرز جمہوریت ہے، جس میں بندو ں کو گنا نہیں بلکہ ان کے مذہب اور نسل کی بنا پر تولا گیا ہے۔اس کو انتخابی عصبیت سے تشبہہ دی جاسکتی ہے۔کیونکہ حلقہ بندیوں کی از سر نو ترتیب اس طرح کی گئی کہ ہندو اقلیت آئندہ اسمبلی میں سیاسی غلبہ حاصل کرسکے۔جموں میں، نئے ہندو اکثریتی حلقے بنائے گئے، جیسے کہ پاڈر جس کی آبادی صرف پچاس ہزار ہے، اسمبلی حلقہ ہے۔ جب کہ اس سے تین گنا زیادہ مسلم علاقوں، جیسے پونچھ ضلع میں سورنکوٹ، کو اسمبلی میں جگہ نہیں دی گئی ۔ جموں کے پونچھ اور راجوری کے مسلم اکثریتی اضلاع کو کشمیر کے اننت ناگ کے لوک سبھا حلقہ میں شامل کیا گیا ہے۔ سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی نے اس ٹیم کو بتایا کہ ووٹ ڈالنے سے قبل ہی انتخابی دھاندلی کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2019 سے پہلے آئین ہند کے آرٹیکل 35-A اور جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت جموں و کشمیر کے مستقل باشندوں کو ووٹ دینے اور جائیداد رکھنے کا حق تھا۔ جو لوگ جو جموں و کشمیر میں مقیم تھے لیکن مستقل رہائشی نہیں تھے وہ صرف پارلیمانی انتخابات میں ووٹ دینے کے اہل تھے اور ان کی غیر مستقل ووٹر کے طور پر درجہ بندی کی گئی تھی۔اب نئے قوانین کی رو سے کوئی بھی شخص جو جموں و کشمیر میں کچھ عرصے سے رہا ہو وہ ووٹر کے طور پر اہل ہو گیا ہے۔ مارچ 2020 میں جموں و کشمیر کے رہائشی کی ایک نئی تعریف متعارف کرائی گئی۔ جس کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں و کشمیر میں 15 سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہے، کوئی بھی شخص جس نے جموں و کشمیر میں سات سال تک تعلیم حاصل کی ہے، یا بطور مہاجر ریلیف اینڈ ری ہیبلی ٹیشن کمشنرکے پاس رجسٹرڈ ہے، ووٹ ڈالنے یا غیر منقولہ جائیداد خریدنے کا حقدار ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق ووٹر لسٹوں میں سات لاکھ ستر ہزار نئے ووٹر وں کا اندراج کیا گیا ہے۔ یہ تعداد اور بھی زیادہ ہوتی اگر جموں کے ڈپٹی کمشنر اور چیف الیکٹورل آفیسر کے 2022 کے حکم کو پوری سابق ریاست میں لاگو کیا جاتا، جس میں تحصیلداروں (ریونیو اہلکاروں) کو کسی بھی ایسے شخص کو ووٹر کے طور پر رجسٹر کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، جو جموں ضلع میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہے۔ جموں میں اس پر عوامی غم وغصہ کے بعد یہ حکم فی الحال واپس لے لیا گیا ۔نئی اسمبلی میں جموں کے علاقے کی طرف ہجرت کرنے والے کشمیری پنڈتوں کے لیے دو نشستیں ہیں، جن میں ایک خاتون بھی شامل ہوگی، اور ایک نشست ان مہاجرین کے لیے اسمبلی میں مخصوص کی گئی ہے جو 1947 اور 1965 کی جنگ میں پاکستانی علاقوں سے آئے تھے تاہم نئی منتخب حکومت کی طرف سے نامزد کرنے کے بجائے ان کو لیفٹیننٹ گورنر نامزد کریگا۔ یعنی یہ طے ہے کہ اگر نئی اسمبلی میں کسی بھی طرح سے بی جے پی یا اسکی حمایت یافتہ گروپ ووٹوں کے ذریعے مطلوبہ تعداد حاصل نہیں کرتا ہے، تو نامزد امیدوارں کے ذریعے اسکو اقتدار میں آ نے دینا ہے۔ اسی طرح پہاڑی برادری کے علاوہ چند اور برادریوں کو شیڈولڈٹرائب یعنی درج فہرست قبائلی تسلیم کیا گیا ہے۔ ابھی تک صرف گجر برادری ہی اس کی حقدار تھی۔ اس کی روسے ان برادریوں کیلئے نوکریوں اور اعلی تعلیمی اداروں میں نشستیں مخصوص ہونگی۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ تحفظات کی جو شرح گجر برادری کیلئے مخصوص تھی، اس پر اب پہاڑی براردی بھی حقدار ہوگئی، جس سے ان کا کوٹا کم ہو جائیگا۔ اس سے گجر اور پہاڑی برادریاں، جو دونوں مسلمان ہیں، ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوجائینگی۔ کشمیر ی برادری کیلئے مواقع مزید سکڑ جائینگے۔ ایک اور قانون میں ہندو دلت والمیکی برادری کو جموں و کشمیر میں درج فہرست ذاتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 15 مزید برادریوںکو او بی سی یعنی دیگر پسماندہ طبقات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ان میں مغربی پاکستانی مہاجرین اور گورکھا برادری شامل ہیں۔ ان قوانین کا اثر سب سے زیادہ جموں میں نظر آئے گا، جہاں درج فہرست ذاتوں او بی سی برادریوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔رپورٹ کے مطابق انتخابات میں اب ذات پات کا عنصر کلیدی اہمیت اختیار کر جائے گا۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح یعنی 23.1 فیصدبھارت میں سب سے زیادہ ہے۔ بھارت میں اس کا اوسط 7.8 فیصد ہے۔ وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پچھلے چار سالوں میں خطے میں سرمایہ کاری میں 50 فیصد سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔جہاں 2017-18 میں یہ سرمایہ کاری 840.55کروڑ روپے تھی، 2022-23میں سکڑ کر 377.76کروڑ روپے رہ گئی ہے۔ جموں و کشمیر انتظامیہ کو صنعتی ترقی کے لیے زمین مختص کرنے کی کل 2,500 درخواستوں میں سے صرف 5-6 درخواستیں باہر سے موصول ہوئیں ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر پیش کی جانے والی مراعات کے باوجود باہر کے لوگ خطے میں سرمایہ کاری کرنے سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ 31 مئی 2023 تک اس خطے میں 199,872 کالج گریجویٹس بے روزگار ہو گئے ہیں۔ بے روزگار نوجوانوں کی کل تعداد 563,984 ہے۔ فکر مند شہریوںکے نام سے اس گروپ کا کہنا ہے کہ بے زمین غریبوں کے لیے 5 مرلہ اراضی (0.031 ایکڑ) فراہم کرنے اور 199,550 مکانات کی تعمیر کا پروگرام شکوک و شبہات کے دائرے میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پروگرام واقعی قابل تعریف ہے، مگر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2021 میں خطے میں بے زمین افراد کی تعداد بس 19,047 ہی تھی۔ پھر یہ لاکھوں مکانات اور زمینیں کس کو بانٹیں جا رہی ہیں؟ اگر ایک گھر میں پانچ افراد رہتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ 997,750 افراد میں زمینیں اور مکانات بانٹے جا رہے ہیں ، جبکہ حکومت کے اپنے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ خطے میں صرف 19ہزار افراد ہی بے گھر اور بے زمین ہیں۔ خدشہ ہے کہ غیر رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے ڈومیسائل کا حق حاصل کرنے کیلئے یہ طریقہ اپنایا گیا ہے۔ ایک اور نئے قانون یعنی لینڈ گرانٹ قانون نے 1960 کے زمینی گرانٹ قانون کی جگہ لے لی، جس کے تحت زمین 99 سال کی لیز پر لی جاسکتی تھی اور اسکو مزید بڑھایا جاسکتا تھا۔ نئے قانون کے تحت سبھی پرانی لیزز کو ختم کر دیا گیا ہے۔ کشمیر ٹریڈرز اینڈ مینوفیکچررز فیڈریشن نے ٹیم کو بتایا کہ سری نگر میں تقریبا نصف کاروبار، بشمول 2000 چھوٹے کاروبار، ان لیز کی شرائط کے تحت کام کر رہے تھے۔ سیاحتی مرکز گلمرگ میں ایک کو چھوڑ کر بقیہ سبھی ہوٹل لیز کی زمین پر قائم ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ لیز کی تجدید نہیں کی جائے گی اور ان کے مالکان کو ان کو خالی کرنا پڑے گا۔ انتظامیہ اب ان جائیدادوں کو لیز پر دینے کے لیے ایک نئی آن لائن نیلامی کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ مقامی تاجروں کو اب اس کے لئے باہر کے صنعت کاروں کے ساتھ مسابقت کرنی پڑے گی، جو ناممکن ہے۔رپورٹ کے مطابق مقامی تاجروں کو خدشہ ہے کہ اس پالیسی سے ان کو نان شبینہ کا محتاج کرایا جائیگا۔ اہم مقتدر شخصیتوں کے علاوہ جن افراد نے کشمیر کا دورہ کرکے اور مختلف افراد سے ملاقاتیں کرکے اس تحقیقی رپورٹ کو ترتیب دیا ہے، ان میں ابھیشیک ببر، وے بھاو لڈا اور شگن بھارگوا شامل ہیں۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز