آپ سب کو اگست ماہ آزادی مبارک۔
اگست کے دن قریب آتے ہیں تو پاکستان کے مجھ جیسے ہم عمروں کو اگست 1947کے کرب اور خوشیاں یاد آجاتی ہیں۔ وہ قافلے، پیدل، ریل گاڑیوں کے ڈبے، بلوائیوں کی کرپانیں، تلواریں،اپنے بچوں کو کلیجوں سے لگاتی مائیں، اپنے بیٹوں کو بچاتے شہید ہوتے باپ۔میرا ضمیر بار بار مجھے احساس دلارہا ہے کہ میں یہ کہوں کہ آج ہم جس پاکستان میں بس رہے ہیں۔ یہ وہ نہیں ہے جو قائد اعظم کی قیادت میں 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا تھا۔ وہ تو چٹا گانگ سے ڈھاکا تک بھی تھا اور اِدھر واہگہ سے دالبندین تک بھی۔
ان دنوں لاکھوں شہیدوں کی روحیں تھیں۔ ان کے لاکھوں وارث۔ پھر کئی کروڑ پہلے سے اس علاقے میں رہتے محنت کرنے والے انصار جو لٹے پٹے گھرانوں کیلئے آنکھیں دل بچھارہے تھے۔ آزادی کا جذبہ ان اجنبیوں کو ایک کررہا تھا۔ دریں اثنا یہ ہوا کہ جو قیام پاکستان کے شدید مخالف تھے۔ اور پاکستان بننے کو اپنی شکست سمجھتے تھے۔ وہ مذہبی جماعتیں چند برس بعد ہی نظریہ پاکستان اور اساس پاکستان کی علمبردار بن کر میدان میں اتر گئیں اور تحریک پاکستان میں حصہ بننے والے خاندان جو ابھی اپنے زخم مندمل کررہے تھے۔ انہیں جاگیرداروں، زمینداروں، سرداروں، خوانین کی مدد سے اپنے گھروں میں دھکیل دیا گیا۔
1958 سے یہ سانپ سیڑھی کا کھیل چل رہا ہے۔ 1971 میں بڑا صوبہ مشرقی پاکستان ہماری نا انصافیوں، جبر اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کی جارحیت سے بنگلہ دیش بن گیا۔ وہ آزادی کی قدر جانتے تھے۔ان متوسط طبقے کے آزادی کے متوالوں نے اکیسویں صدی میں دکھادیا کہ وہ ہم سے کہیں بہتر حکمرانی جانتے ہیں۔
ہمارے معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ انارکی ہے۔جب ہم چین پاکستان اقصادی راہداری کے دس سال منارہے ہیں ملک سے ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل چکا ہے۔ لیکن 23کروڑ میں سے اکثریت ذاتی ڈیفالٹ سے دوچار ہے۔ چھ سے سات کروڑ کے درمیان غربت کی لکیر سے نیچے ہیں ان کی آمدنی ماہانہ 3 ہزار روپے سے بھی کم ہے۔ سات کروڑ کے علاوہ جو 16کروڑ ہیں۔ ان میں سے بھی صرف چند لاکھ یا زیادہ سے زیادہ ایک کروڑ ہونگے۔ جن کے پاس ان کی ضروریات سے کچھ زیادہ آمدنی ہے۔ باقی جو 15کروڑ ہیں ان کی زندگی بھی مشکل سے گزرتی ہے۔ ماہرین درست کہتے ہیں کہ پاکستان دو ہیں۔ خوشحالی ہر پاکستانی گھرانے تک نہیں پہنچی ہے۔ کاظم سعید کی ضخیم کتاب دو پاکستان میرے سامنے ہے۔ اس پر کسی وقت آپ سے بات ہوگی۔ اعداد و شمار کی بنیاد پر انہوں نے دو پاکستانوں کی تفصیلات دی ہیں اپریل 2022 سے۔
ایک پاکستان بہت ہشاش بشاش ہے۔ بہت تیزی میں ہے۔ چہرے کھلے ہوئے ہیں۔ ظاہر تو یہ کیا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوجانے اور ڈیفالٹ کا خطرہ ختم ہوجانے کی خوشی ہے۔ لیکن اس خوشی کے حقیقی اسباب یقینا کچھ اور ہیں۔ آئندہ چند برس کیلئے راستے سے بظاہر کانٹے ہٹنے کی تسکین ہے۔ عوام کی اکثریت میں مقبول پارٹی کو الیکشن سے باہر کیا جارہا ہے۔ سارے مقدمات سے بری ہونے کی والہانہ خوشی ہے۔ لیکن ان دونوں اہم مسرتوں سے 22کروڑ کو کیا راحت مل رہی ہے۔
ہم اور آپ تو اس سوال کا جواب بہتر نہیں دے سکتے۔ماہرین معیشت اعداد و شمار اور مسلمہ اقتصادی اصولوں کی بنیاد پر کچھ کہہ سکتے ہیں قوم اس وقت بہت پریشان ہے۔ اکثریت کو علم نہیں ہے کہ ان کی پسند کے امیدوار انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوں گییا نہیں۔ اب ڈاکٹر قیصر بنگالی کے ماہرانہ خیالات سامنے آرہے ہیں۔ اس سے پہلے شبر زیدی صاحب کی تشویش بھی جامع انداز میں سامنے آئی۔ ملک کے سب سے قدیم اور معتبر تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انیٹرنیشنل افیئرز میں ڈاکٹر قیصر بنگالی کا مختصر خطاب سوشل میڈیا میں وائرل ہورہا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہر حکومت نے پاکستان میں گزشتہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لینے کی حکمتِ عملی اپنا رکھی ہے۔ کامیاب وزیر خزانہ پاکستان میں وہی سمجھا جاتا ہے جو آئی ایم ایف سے قرضہ لے سکے۔ اپنی آمدنی کے ذرائع نہیں بڑھائے جا رہے۔ انہوں نے بڑے وثوق سے کہا کہ ہم نے معیشت اور سلامتی کے دریچے بند کردیے ہیں۔ اپنے لوگوں کی صلاحیتوں سے کام لینے کی بجائے بینک، ادارے، ایئرپورٹ، مواصلات، غیر ملکیوں کے حوالے کئے جارہے ہیں۔ حالات، معاہدوں اور اعداد وشمار کی بنا پر ان کا کہنا ہے کہ ہماری معاشی خود مختاری۔ آئندہ 3 عشروں تک بحال نہیں ہوسکے گی۔ لاکھوں پاکستانی صرف ملازم ہوں گے۔ ان کے آجر غیر ملکی ہوں گے۔ ان کی تحقیق یہ بھی ہے کہ 1993 سے اب تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زیادہ تر گورنر عالمی اداروں سے آئے۔ کسی کی بھی دس سال کی مدت ملازمت پاکستان میں نہیں تھی۔ نئے منصوبوں کے افتتاح ہورہے ہیں۔ لیکن انہیں چلانے کیلئے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اسلئے ہم اپنے اثاثے دوسروں کے حوالے کررہے ہیں۔ شبر زیدی صاحب کا یہ نکتہ لائق غور ہے کہ ہم دکانداروں تاجروں کے بڑے طبقے کو ٹیکس کے دائرے میں نہیں لاسکتے۔ ہر کوشش ناکام ہوجاتی ہے۔یہ تشویشناک حالات عین اس وقت پیدا ہورہے ہیں۔ جب موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت ختم کرکے تحلیل ہونے والی ہیں۔ ایک ڈیڑھ ہفتے بعد اسی آزادی کے مہینے میں اسلام آباد، کوئٹہ، کراچی میں بھی نگراں حکومتیں ہوں گی۔ پنجاب کے پی کے میں پہلے سے نگراں حکومتیں اپنی آئینی مدت کے بعد جاری رہ کر کامیابی کے ریکارڈ قائم کر چکی ہیں۔ اب ان نئی نگراں حکومتوں کی باری ہو گی۔
حقیقت حال یہ ہے کہ اس اقتصادی بحرانی صورت حال میں ہمیں اپنے ماہرین معیشت سے رہنمائی لینی چاہئے۔ 1988سے اب تک باریاں لینے والے سیاستدان معیشت کو نہ سنبھال سکنے کا ریکارڈ بنا چکے ہیں۔ غیرملکی ماہرین معیشت بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اپنے وسائل کو بروئے کار لانا ہوگا۔ اخراجات کم کرنا ہونگے۔ اب یہ ان خوشحال ایک کروڑ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی روایتی خود غرضی چھوڑ کر 22کروڑ کی ضروریات کا خیال کریں۔ تقریروں اور افتتاحی تقریبوں سے نہیں۔ ماہرین معیشت کو اپنے طور پر کہیں اکٹھے ہو کر بیٹھنا چاہئے اور ایک اکنامک چارٹر کا اعلان کریں۔ کم از کم آئندہ تیس برس کیلئے۔ یہ ان کی قومی ذمہ داری ہے۔ یہ انتظار نہ کریں کہ انہیں وزارتِ خزانہ دی جائے گی تو ہی وہ کچھ کریں گے۔ 22 کروڑ کی زندگی اجیرن ہو رہی ہے۔ ان سے سارے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ آزادی سے سانس حقیقی معاشی خود مختاری میں ہی لے سکتے ہیں۔ ماہرین معیشت اس ماہِ آزادی میں کہیں مل بیٹھیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ