فکرمند بھارتی شہریوں کی کشمیر پر نئی رپورٹ : تحریر افتخار گیلانی


بھارتی آئین میں درج جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے خلاف دائر عرضیوں پر بھارتی سپریم کورٹ نے چار سال بعد سماعت شروع کر دی ہے۔ حکومت کے طرف سے دائر حلف نامہ میں بتایا گیا اس خصوصی حیثیت کے خاتمہ، ریاست کو تحلیل کرکے مرکز کے دو زیر انتظام علاقوں میں تبدیل کرنے سے خطے میں بے مثال تعمیر و ترقی کے کام ہوئے ہیں اور سلامتی اور استحکام کا احساس پیدا ہوا ہے۔ مگر فکر مند شہریوں کے ایک غیر رسمی گروپ نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ زمینی حقائق ، حکومتی دعوؤں سے میل نہیں کھاتے ہیں۔ فورم فار ہیومن رائٹس آن جموں وکشمیر سے وابستہ اس غیر رسمی گروپ کے 19اراکین میں پانچ ریٹائرڈ سینئر جج، جن میں دو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، ایک سپریم کورٹ جج ، چار سابق سینئر بیوروکریٹ، جن میں ایک سیکرٹری داخلہ، ایک سیکرٹری خارجہ اور ایک جموں و کشمیر کے سابق چیف سیکرٹری کے علاوہ فوج کے سابق اعلی افسران، جن میں فضائیہ کے سابق نائب سربراہ اور فوج کی شمالی کمان کے سربراہ کے علاوہ تاریخ دان رام چندر گوہا شامل ہیں۔ سابق سیکرٹری داخلہ گوپال کرشن پلئے اور حکومت کی سابق مصالحت کار رادھا کمار اس گروپ کی کوآرڈینیٹر ہیں۔ اپنی تازہ ترین رپورٹ میں اس گروپ کا کہنا ہے کہ حکومتی دعووں کے برعکس کشمیر کے زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کا امن و امان و سلامتی کا دعوی صحیح ہے، تو یہ خطہ پچھلے پانچ سالوں سے منتخب اسمبلی کے بغیر کیوں ہے؟ آخر حکومت پھر اس خطے میں انتخابات منعقد کیوں نہیں کرا پا رہی ہے؟ فورم کا کہنا ہے کہ اگست 2019 سے جولائی 2022 کے درمیان تین درجن سے زیادہ معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کی گارنٹی دینے والے قوانین کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ محتاط تخمینہ کے مطابق500بلین روپے کا نقصان اس خطے کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ اسکے علاہ زمین اور ڈومیسائل کے حقوق کی پامالی، قابل اعتراض گرفتاریاں، مواصلاتی پابندیاں، میڈیا کو ڈرانا اور دھمکانا اور آزادی اظہار اور نقل و حرکت پر پابندیوں میں شاید ہی کوئی کمی آئی ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ آئے دن کے حکومتی اقدامات بداعتمادی اور خوف کو ہوا دے رہے ہیں۔ گروپ کے مطابق حیرت انگیز طور پر جموں اور کشمیر میں 2023 میںسب سے زیادہ اسلحہ کے لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔ دسمبر 2016 میں خطے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 369,191 اسلحہ لائسنس ہولڈر تھے۔ بعد میں حکومت نے اسلحہ کے لائسنس کے اجرا پر پابندی لگا دی تھی۔ اس سال جنوری میںجب پابندی ہٹائی گئی، تو پہلے چھ ماہ میں ہی 130,914 نئے لائسنس جاری کیے گئے۔ جموں و کشمیر جیسے چھوٹے خطے میں اتنی بڑی تعداد میں اسلحہ کا لائسنس جاری کرنا اور ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی پشت پناہی کرنا حیران کن امر ہے ۔یہ کن افراد کو جاری کئے جا رہے ہیں اور وہ اس کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں جیسے سوالوں کے گھیرے میں ہیں؟ گرچہ حکومت کا دعوی ہے کہ 2019 سکیورٹی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، لیکن اس گروپ کا کہنا ہے کہ یہ 2019 سے پہلے کی نسبت کافی خراب ہے۔ اعداد و شمار کے حوالے سے فورم کا کہنا ہے کہ 2012 سے 2015 کے درمیانی سالوں میں سکیورٹی حالات خاصے بہتر ہو گئے تھے۔ علاوہ ازیں جموں ڈویژن کے دوردراز پہاڑی پیر پنچال علاقے میں ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کا احیائ، جن کو اب ڈیفنس گارڈز کا نام دیا گیا، تشویش کا موجب ہے۔ لال کشن چند ایڈوانی نے جو1998 سے 2004 کے درمیان بھارت کے وزیر داخلہ تھے، ان کمیٹیوں کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس کا مقصد تھا چونکہ پولیس اور سیکورٹی دستے ان دوردراز علاقوں میں فورا نہیں پہنچ پاتے تھے، اس لئے دیہاتیوں میں اسلحہ تقسیم کیا گیا تھا اور ان کو فوجی تربیت دی گئی تھی، تاکہ وہ اپنا دفاع خود کرسکیں ۔ کم سے کم سکیورٹی دستوں کے آنے تک عسکریت پسندوں سے مقابلہ کرسکیں۔ مگر چونکہ صرف ہندو دیہاتیوں کو ہی ولیج ڈیفنس کمیٹیوں میں بھرتی کیا گیا تھا، انہوں نے جلد ی اپنے مسلمان پڑوسیوں سے پرانے بدلے چکانے شروع کر دیے۔ کئی علاقوں میں وصولی کا دھندا شروع ہوگیا۔ لاتعداد شکایتوں کے بعد ان کو تحلیل کر دیا گیا اور ان سے اسلحہ بھی واپس لے لیا گیا۔ یہ بھی رپورٹیں ملی تھیں کہ ان میں تقسم کیا گیا ایمینیشن عسکریت پسندوں کے پاس پہنچ گیا ہے۔ گروپ نے یاد دلایا کہ یہ طریقہ کار ماضی میں ناکام ہوا ہے ۔ بغیر کسی جوابدہی کے ان مسلح افراد نے مقامی یہاتیوں کو ہی نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ یہ خدشہ اب دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگست 2019 کے بعد سیاسی رہنماں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں سمیت 5000 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جن میں 144 نابالغ بھی شامل تھے۔ ان گرفتاریوں کے علاوہ، 2019 اور 2023 کے درمیان مزید 1,071 گرفتاریاں کی گئیں۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (UAPA) اور احتیاطی حراست والا بد نام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) جیسے سخت قوانین کے استعمال کو محدود کرنے کی ہدایات کے باوجود،انکا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے اور اسکی زد میں کئی میڈیا کے افراد بھی آگئے ہیں۔ دسمبر 2022 میں، وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے پارلیمنٹ کو اطلاع دی تھی کہ 2021 کے آخر تک UAPA کی گرفتاریوں سے متعلق 830 زیر التوا تحقیقات ہیں۔ جموں و کشمیر میں گرفتار کیے گئے 668 افراد میں سے 651 پر فرد جرم عائد کی گئی، کسی کو سزا نہیں ہوئی، اور 26 کو بری کر دیا گیا۔مارچ 2023 کو، صحافی عرفان میراج کو قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی اے نے UAPA کے تحت کشمیری غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز)، فانڈیشنز کے سلسلے میں ہورہی تفتیش کیلئے گرفتار کیا ۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ انسانی حقوق کے ممتاز کارکن خرم پرویز کے قریبی ساتھی ہیں ور ان کی تنظیم جموں اور کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹیز (JKCCS) کے لیے کام کرتے ہیں۔ میراج نے مارچ 2022 میں JKCCS کو چھوڑ دیاتھا۔ پرویز نومبر 2021 سے دہشت گردی کی مبینہ مالی اعانت اور سازش کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے ہے۔ فورم نے جموں و کشمیر کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی ہے۔ اس خطے میں 14 جیل کمپلیکس ہیں ،جن میں دو سینٹرل جیل، 10 ڈسٹرکٹ جیل، ایک خصوصی جیل اور ایک سب جیل شامل ہیں۔ ان کمپلیکس میں مجموعی طور پر 3,629 قیدیوں کی گنجائش ہے، لیکن جون 2023 تک، ان میں 5300 قیدی تھے۔دسمبر 2022 تک، کوٹ بلوال سینٹرل جیل میں 1,016 قیدی تھے، حالانکہ اس کی منظور شدہ گنجائش 902 تھی۔ سری نگر سنٹرل جیل میں 722 قیدی تھے حالانکہ اس کی گنجائش 509 تھی۔ جموں ڈسٹرکٹ جیل میں 688 قیدی تھے حالانکہ اس کی گنجائش 426 تھی۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز